۳۔ اس کی نسبت ایک موضوع روایت مشہور ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ نے آٹا پکاکر مروڑیاں جمع کرکے سویاںپکائی تھیں، یہ محض تہمت ہے، کہیں ثابت نہیں۔
۴۔ اور دینے لینے میں رِیاوتفاخر ہونا یہاں بھی موجود ہے۔ اکثر اعزہ واقارب کے بچوں کو شرم اُتارنے کے لیے دیا جاتاہے، خواہ گنجایش ہو یا نہ ہو، پھر جانبِ ثانی سے اسی دن یا اگلی عید بقر عید کو نہایت ضروری سمجھ کر اس کا عوض ادا کیا جاتاہے۔ جو مصیبت نوتا میں تھی وہی یہاں بھی ہے۔ اسی طرح سویوں کا طباق جہاں اُس نے اِس کی بہو کو اور اِس نے اُس کی بہو کو دیا لیا، جس کو ٹھٹیرا بدلوائی کہا جائے تو نہایت زیبا ہے۔ اسی دل لگی میں جانبین پر پورا پورا بار ہوگیا۔ اس تاریخ میں حضرت پیغمبر ﷺ سے صرف اس قدر ثابت ہے کہ چند خرما نوش فرماکر عید گاہ تشریف لے جاتے تھے۔ اگر رغبت ولذ۔ّ ت کے لیے دودھ سویاں وغیرہ بھی اضافہ کرلے تو مباح ہے۔ مگر اس کاایسا پابند نہ ہو جس سے مفاسدِ مذکورہ لازم آئیں، کبھی کبھی ناغہ بھی کردیا کریں۔ گنجایش نہ ہونے کے وقت خواہ مخواہ تردّد میں نہ پڑے اور گنجایش کے وقت بھی رسوم کا اتباع نہ کرے، بے تکلّفی سے جو ہوجاوے اس پر بس کرے۔
عشرۂ محرم میں حدیث سے دو امر ثابت ہیں: نویں دسویں کا روزہ اور دسویں تاریخ اپنے گھر والوں کے خرچ میں قدرے وسعت کرنا وارد ہوا ہے کہ اس عمل سے سال بھر تک روزی میں وسعت رہتی ہے۔ باقی اُمورِ حرام یہ ہیں:
۱۔ تعزیہ بنانا، جس کی وجہ سے طرح طرح کا فسق وشرک صادر ہوتا ہے۔ بعض ۔ُجہلا کا اعتقاد ہوتاہے کہ نعوذباللہ اس میں حضرت امام حسین ؓ رونق افروز ہیں اور اس وجہ سے اس کے آگے نذرونیاز رکھتے ہیں۔ جس کا {مَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِج}میں داخل ہوکر کھانا حرام ہے۔ اس کے آگے دست بستہ تعظیم سے کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کی طرف پشت نہیں کرتے، اس پر عرضیاں لٹکاتے ہیں۔ اس کے دیکھنے کو زیارت کہتے ہیں۔ اور اس قسم کے واہی تباہی معاملات کرتے ہیں جو صریح شرک ہیں۔ ان معاملات کے اعتبار سے تعزیہ اس آیت کے مضمون میں داخل ہیں۔ {اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَO}1یعنی کیا ایسی چیز کو پوجتے ہیں جس کو خود تراشتے ہیں۔
اور طرفہ ماجرا یہ ہے کہ یا تو اس کی بے حد تعظیم وتکریم ہورہی تھی اور یا دفعتاً اس کو جنگل میں لے جاکر توڑ پھوڑ کر برابر کیا۔ معلوم نہیں آج وہ ایسا بے قدر کیوں ہوگیا؟ واقعی جو امر خلافِ شرع ہوتاہے وہ عقل کے بھی خلاف ہوتاہے۔ بعض نادان یوں کہتے ہیں کہ صاحب! اس کو حضرت امام ِعالی مقام کے ساتھ نسبت ہوگئی اور ان کانام لگ گیا۔ اس لیے تعظیم کے قابل ہوگیا۔
جواب اس کا یہ ہے کہ نسبت کی تعظیم ہونے میں کوئی کلام نہیں، مگر جب کہ نسبت واقعی ہی ہو، مثلاً: حضرت امام حسین ؓ کا