فصلِ دوم: ایک رسم یہ ہے کہ جب کسی شیخ کی وفات ہوئی اس کے ۔ُمریدوں نے جمع ہوکر اسی کے کسی بیٹے کو یا کسی خادم کو سجادہ نشین کردیا اور سند کے لیے دستار بندی کردی، خواہ اس میں اہلیت ہو یا نہ ہو۔ خیال کرنے کی بات ہے کہ جولوگ ابھی خود اس راہ سے نا آشنا ہیں ان کی اجازت کہاں تک قابلِ اعتبار ہوسکتی ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ جتنے لوگ ایسے رسمی سجادہ نشین سے بیعت ہوں گے ان سب کی گمراہی کا وبال اس سجادہ نشین کی برابر ان اربابِ جلسہ کو بھی مل جاوے گا کہ یہ لوگ بانیٔ ضلالت ہوئے۔ حدیث شریف میں علاماتِ قیامت سے آیا ہے کہ ’’لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے، وہ خود بھی گمراہ ہوں گے، اوروں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘۔1 اس لیے سمجھ لینا ضروری ہے کہ جب تک کوئی شیخِ کامل جامعِ شریعت وطریقت جس کو اس زمانہ کے اچھے لوگوں نے اہل مان لیا ہو اجازت نہ دے، بیعت لینے پر جرأت نہ کرنا چاہیے۔
فصلِ سوم: ایک رسم یہ ہے کہ اکثر بعد مرنے مورثِ اعلیٰ کے کوئی چچا یا بھائی وغیرہ کسی لڑکے یا لڑکی کا نکاح اسی کے حصے سے جو ترکہ سے اس کوپہنچا ہے کردیتے ہیں اور فضول اخراجات میں اس کو برباد کردیتے ہیں اور اپنے ذہن میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو اس کی چیز اس کو لگادی، کون سا گناہ کیا۔
اس کی تو ایسی مثال ہوئی کہ کسی مسخرہ میزبان نے دعوت کرکے مہمانوں کی جوتیاں بیچ کر ان کومٹھائی کھلادی تھی اور کہاتھا کہ ’’یہ آپ ہی کی جوتیوںکا صدقہ ہے‘‘۔ بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کچھ قرضہ بھی ہوجاتاہے، تو وہ اس لڑکے کے ذمے رکھا جاتاہے اور اس سے ادا کرایا جاتا ہے۔ یہ کس قدر ظلمِ صریح ہے۔
پس اوّل تو فضول رسوم خود ناجائز ہیں اور جومصارف مباح وجائز بھی ہوں تب بھی اس کے حصہ سے بلا اس کی رضائے صریح کے جب کہ وہ بالغ ہو۔َصرف کرنا حرام ہے۔ اور اگر وہ نابالغ ہے تو صریح اجازت بھی شر۔ًعا معتبر نہیں، یا ویسے ہی رسمی اجازت ہے بوجہ لحاظ کے یا عرف کے، یہ سب غیر معتبر ہے۔
فصلِ چہارم: ایک رسم یہ ہے کہ لڑکیوں کو بہنوں کو ترکہ سے حصہ نہیں دیتے جو نصِ قطعی کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورئہ نساء میں فرمایا ہے کہ ’’مردوں کابھی حصہ ہے جو کچھ ماں باپ یا اقارب نے چھوڑا، اسی طرح عورتوں کابھی حصہ ہے