لیے ایک امرِ ناجائز بھی کافی ہے جیسا کہ ظاہر ہے۔
تیسری صورت: وہ محفل جس میں نہ تو پہلی صورت کا سا اطلاق وبے تکلّفی ہو اور نہ دوسری صورت کی طرح اس میں قیودِ حرام ہوں، بلکہ قیود تو ہوں مگر ایسے قیود ہوں جو خود اپنی ذات
میں مباح و حلال ہیں، یعنی روایات بھی صحیح ومعتبر ہوں، بیان کرنے والا بھی ثقہ، دین دار ہو اور محلِ شہوت بھی نہ ہو، مال بھی اس میں حلال وطیب ۔َصرف کیا جاوے، آرایش وزیبایش بھی حدِ اسراف تک نہ ہو، حاضرینِ محفل کا لباس ووضع موافق شرع کے ہو اور اتفاقا۔ً کوئی خلافِ شرع ہیئت سے حاضر ہوجائے تو بیان کرنے والا بشرطِ قدرت امر بالمعروف سے دریغ نہ کرے، اسی طرح حسبِ موقع اور ضروری احکام بھی بیان کرتا جاوے، اگرکچھ نظم ہو تو قواعدِ موسیقی سے نہ ہو، مضمون اس کا حدِ شرع سے متجاوز نہ ہو، لوگوںکو بلانے اور اطلاع کرنے میں مبالغہ نہ ہو، کسی ضروری عبادت میں اس مجمع میں حاضر ہونے سے خلل نہ پڑے،بانی کی نیت بھی خالص ہو، محض امیدِ برکت ومحبتِ سرورِ عالم ﷺ اس کا باعث ہو۔ اور اگر صیغۂ ندا کسی کلام میں ہو تو قرائنِ قویہ سے اعتماد کامل ہو کہ حاضرین کم فہم نہیں ہیں جو آپ ﷺ کو حاضر وناظر وعالم الغیب سمجھیں گے اور بھی جمیع منکرات سے پاک ہو۔ مگر اس میں یہ امور بھی ہیں: شیرینی وقیام وفرش ومنبر وبخور وعطر و مثل اس کے جو اپنی ذات میں خلافِ شرع نہیں ہیں۔ یہ وہ محفل ہے جو نہایت احتیاط والوں میں شاید کہیں شاذ ونادر پائی جاتی ہو۔ پس ایسی محفل نہ تو پہلی محفل کی طرح علی الاطلاق جائز ہے اور نہ دوسری محفل کی طرح علی الاطلاق ناجائز ہے، بلکہ اس کے ناجائز اور جائز ہونے میں تفصیل ہے جو عنقریب معروض ہوتی ہے۔ مگر قبلِ بیان اس تفصیل کے چند قواعدِ شرعیہ معروض ہوتے ہیں جو فہمِ تفصیل میں معین1 ہوں گے۔
قاعدۂ اوّل: کسی امر ِغیر ضروری کو اپنے عقیدہ میں ضروری اور مؤکد سمجھ لینا یا عمل میں اس کی پابندی اصرار کے ساتھ اس طرح کرنا کہ فرائض وواجبات کی مثل یا زیادہ اس کا اہتمام ہو اور اس کے ترک کو مذموم اور تارک کو قابلِ ملامت وشناعت جاننا ہو،2 یہ دونوں امر ممنوع ہیں، کیوں کہ اس میں حکمِ شرعی کو توڑ دینا ہے، اور تقیید و تعیین و تخصیص والتزام وتحدید وغیرہ اسی قاعدہ اور مسئلہ کے عنوانات وتغیرات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’جو شخص تجاوز کرے گا اللہ تعالیٰ کی حدود سے پس ایسے ہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔