بسم اللہ الرحمن الرحیم
ضمیمہ اصلاح الرسوم
جس کو طبع ثانی کے وقت مؤلف نے اضافہ کیا، اس میں بھی چند فصلیں ہیں اور ہر فصل میں ایک رسم کا بیان ہے۔
فصلِ اوّل: ایک رسم یہ ہے کہ جب کوئی شخص مرجاتاہے تو اس کے وُرثاء میں سے جو موقع پر موجود ہوتے ہیں اس کے کپڑے نکال نکال کر غریبوں کو محتاجوں کو مدارس میں مساجدمیں تقسیم کرنا شروع کردیتے ہیں اور اس کا خیال نہیں کرتے کہ بعض وارثین جو حاضر نہیں ہیں اس میں ان کا بھی حصہ ہے، ممکن ہے کہ وہ اس تقسیم کو پسند نہ کریں یا ان کی مرضی اور کسی جگہ دینے کی ہو۔ اسی طرح بعض وُرثاء نابالغ ہوتے ہیں، ان کے حصے میں بھی تصرف کرنا جائز نہیں، بلکہ اگر وہ اجازت بھی دے دیں، تب بھی عقدِ تبرع وہبہ میں ان کی اجازت شر۔ًعا معتبر نہیں ہے۔
اسی طرح کفن کے علاوہ اُوپر کی چادر اور جانماز یہ سب کفن سے خارج ہے اور عام رواج یہی ہے کہ یہ ترکۂ مشترکہ میّت سے بنایا جاتاہے۔ سو ان چیزوں میں بوجہ تصرف فی حق الغیر کے غصب اور ظلم کا گناہ ہوتاہے، اس لیے اس میں احتیاط کرنا ضروری ہے۔ پس اگر میّت نے وصیت صراحتاً کی ہو کہ میرے کپڑے مساکین یا ۔ُصلحا کو دے دیے جاویں تو یہ وصیت ثلث ترکہ میں جاری ہوگی،یعنی جس قدر کپڑوں کے لیے وہ وصیت کرگیا ہے اگر کل ترکہ کے ثلث سے قیمت میں زائد نہ ہوں تو بلا کسی وارث کے دریافت کیے ہوئے وہ تقسیم کردیے جاویں۔ ورنہ ان کو اوّل تقسیم کرنا چاہیے۔جب ہر شخص اپنے حصہ پر قابض ہوجائے، پھر ہر ایک کو اپنی چیزکا اختیار ہے جس کو چاہے دے یا نہ دے۔ اور نابالغوں کا حصہ اگر ان کے بکار آمدہو رکھا جاوے، ورنہ فروخت کرکے ان کے کام میں لگایا جاوے۔
البتہ اگر کسی جگہ سب وارث بالغ ہوں اورتصریحا۔ً یا دلالتاً بقرائنِ قویہ اجازت دے دیں تب بلا تقسیم بھی ۔َصرف کردینا جائز ہے اور جس جگہ لینے والے کو حال معلوم نہ ہو تو چوں کہ غالب بے احتیاطی ہے اس لیے واجب ہے کہ خوب تفتیش کرلیا کریں، یہ نہیں کہ ۔ُمردہ کے مال کو غنیمت سمجھیں۔اہلِ مدارس ومساجد کو اس کا بہت خیال رکھنا ضروری ہے، ان کی احتیاط سے عوام متنبہ ہوجائیں گے۔