فصلِ دوم: من جملہ ان رسوم کے اولیاء اللہ کا عرس و فاتحۂ مروّجہ ہے جو کسی وقت میں بمصلحتِ ایصالِ ثواب بارواحِ بزرگان واستفادۂ برکاتِ اجتماعِ ۔ُصلحا شروع ہوا تھا، مگر اب اس میں بھی مثل دیگر اُمور کے بہت سے مفاسد پیدا ہوگئے۔ چنانچہ عرس میں تویہ اُمور ہوگئے:
۱۔ بعض جگہ تو خوب بازاری عورتوں کا ناچ ہوتاہے، جس کا حرام ہونا ظاہر ہے اور بابِ اوّل میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ خصوصاً قبور پر جو جگہ عبرت و تذکرۂ موت و تذکرئہ آخرت کی ہے۔ پھر خاص کر قبورِ اولیا پر جن کواپنی حیات میں بول وبراز سے زیادہ نفرت معاصی سے تھی۔ ظاہرہے کہ ایسے مجمع میں جانا لاریب فسق ومعصیت ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ ہم تو بہ نیتِ زیارت جاتے ہیں، ہم کو ان منکرات1 سے کیا ضرر، جواب یہ ہے کہ اوّل تو ممکن نہیں کہ مجمعِ فسق میں جاوے اور ضرر نہ ہو، کچھ نہ کچھ میلان معصیت کی طرف یا چشم و گوش کا تلو۔ّث2 ضرور ہی ہوجاتاہے۔ دوسرے یہ کہ زیارت دوسرے وقت بھی ہوسکتی ہے۔ تیسرے زیارت کچھ فرائض وواجبات سے نہیں۔ فرض وواجب کے ادا کرنے میں اقترانِ معصیت پر نظر نہیں کی جاتی۔ اور مباح بلکہ مستحب میں اگر ایسا اتفاق ہو تو خود اس مستحب کو ترک کردینا واجب ہے، جیساکہ ابھی فصلِ اوّل کے قاعدئہ دوم میں ذکر ہوچکا ہے۔ پھر یہ کہ اس کی حرکت سے دوسروں کو ضرر ہوتا ہے اور اہلِ معصیت کے فعل کی تائید ہوتی ہے، اس وجہ سے بھی اس سے بچنا ضروری ہے، جیساکہ فصلِ اوّل کے قاعدئہ سوم میں بیان ہوچکا ہے۔
۲۔ بعض جگہ بازاری عورتیں نہیں ہوتیں اور بجائے ان کے قو۔ّال و معازف و مزامیر ہوتے ہیں۔ ایسے سماع کے متعلق اس عاجز نے ایک رسالہ ’’حق السماع‘‘ مفصل طورپر لکھا ہے۔ اس میں آداب و شرائط سماع کے اورجو جو اس میں مفاسد ہوگئے ہیں ان سب کا ذکر بالتفصیل کیا ہے، جس سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس زمانہ کے مجالسِ سماع حسبِ اقوالِ ائمۂ تصوف ہرگز ہرگز جائز نہیں۔
۳۔ بعض جگہ یہ قصہ بھی نہیں، صرف معیّن تاریخ پر اجتماع اور قرآن خوانی وتقسیمِ طعام یا شیرینی ہوتاہے اور بس۔ اور ایسے عرس کو اس زمانہ میں مشروع عروس سمجھتے ہیں۔ مگر اس میں بھی وہی خرابی اصرار وتعیّن والتزامِ مالا یلزم وغیرہا کی یقینا موجود ہیں جس کی وجہ سے عوام کے عقائد بھی فاسد ہوتے ہیں اور بعض اوقات مہتممِ عرس کو اس کے انجام دینے کے لیے قرض لینا پڑتا ہے، گو سودی ہی کیوں نہ ملے پھر حاضر ین عرس کی دست نگری کرتا ہے کہ ان سے نذرانہ وصول ہو تو یہ قرض ادا کیا جاوے، بلا ضرورت قرض لینا خاص کر سودی اورلوگوں کے ہاتھوں کوتکنا جس کا منشا حرص وطمع ہے، ظاہر ہے کہ شرعاً اور عقلاً سخت مذموم ہے۔ حدیث میں اس دست نگری کی نسبت آیا ہے: وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْہٗ نَفْسَکَ (جو چیز