درزی کو بھی ایسا کپڑا سینا جائز نہیں، کیوں کہ گناہ کی اعانت گناہ ہے، صاف انکار کردینا چاہیے، کچھ رزق ایسے ہی کپڑے سینے پر منحصر نہیں ہے۔
فصلِ نہم: من جملہ ان رسوم کے گھر میں تصویروں کا لگانا اور بلا ضرورت کتوں کا رکھنا ہے۔ حدیث میں ہے، ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: ’’نہیں داخل ہوتے فرشتے (رحمت کے) جس گھر میں کتا یا تصویر ہو‘‘۔3 روایت کیا اس کو بخاری ومسلم نے۔ اور حدیث میں ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ’’سب سے زیادہ عذاب اللہ تعالیٰ کے نزدیک تصویر بنانے والے کو ہوگا‘‘۔1 اور حدیث میں ہے، فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ’’جو شخص بجز ان تین غرض کے کتا پالے: ۱۔ مویشی کی حفاظت ۲۔شکار۳۔ کھیت کی حفاظت، اس کے ثواب میں سے ہر روز ایک قیراط کم ہوتا رہے گا‘‘۔2 روایت کیا اس کو مسلم و بخاری نے۔ دوسری حدیث میں اس عالم کی قیراط کی مقدار احدپہاڑ کے برابر آئی ہے۔3
ان حدیثوں سے تصویر بنانا، تصویر رکھنا، بلاضرورت کتا پالنا سب کا حرام ہونا ثابت ہوگیا۔ اس زمانہ میں تہذیبِ جدید کے لوازم میں سے یہ دونوں امر ہوگئے۔ تصویر جزو مکان اور کتا داخلِ اہل وعیال سمجھا جاتاہے۔ ذرا بھی دل کو انقباض4 اور روک نہیں، بے دھڑک دونوں چیزیں برتی جاتی ہیں۔
بعض لوگوں پر اس قدر عقل پرستی کا غلبہ ہے کہ کتے کے اوصاف حمیدہ بیان کرکے وجہ ممانعت دریافت کرتے ہیں، گویا درپردہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ! اس حکمِ شرعی کے عبث اور لغو ہونے کے مدعی ہیں۔ اگر سچ مچ ان کے دلوں میں ایسا ہی خیال ہے تو تجدید ِایمان ضروری ہے۔ مسلمان بننے کے بعد احکامِ شریعت کی علت ڈھونڈنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حکامِ مجازی کے بہت سے قوانین واحکام کی علت سمجھ میں نہیں آتی اورپھر بے چوں وچرا ان کو مانتے ہیں، تو حاکمِ حقیقی کے احکام میں کیوں چوں وچرا کیا جاوئے۔ اگر کوئی کہے کہ ہمارا دین تو عقل کے موافق ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ عقل کے موافق ضرور ہے، مگر ہر عقل کی رسائی تو وہاں تک ضروری نہیں۔ مثلاً: بہت سی چیزیں حسِ بصر سے دریافت کرنے کے قابل ہیں، مگر اندھوں کو تو ادراک نہیں ہوسکتا۔ یہ عقل والے کاکام ہے کہ علتِ احکام کو سمجھ لے، یہ عقل انبیااور اولیائے کاملین و علمائے راسخین5 کو عطا ہوئی ہے۔ عوام کی عقل میں اس قدر قوت نہیں اور کوئی سرٹیفکیٹ یا پاس
حاصل کرلینے سے زمرئہ عوام سے خارج نہیں ہوجاتا۔ پھر یہ کہ مراد اس سے دین کے اصول ہیںکہ وہ عقلی ہیں، یعنی جو قرآن وحدیث کو نہ مانتا ہو اس کو توحید ورسالت کی تعلیم دلیلِ عقلی سے ممکن ہے۔ رہ گئے فروع، مثلاً: فلاں چیز حرام کیوں ہے؟ فلاں چیز حلال کیوں ہے؟ اس کا عقلی ہونا بایں معنی ضروری نہیں، بلکہ اس میں دلیلِ شرعی سے مان لینا چاہیے