قحط یا وبا کے چندہ میں مساکین کو بہت ہی کم پہنچتا ہے، مہتممین کے گھروں میں اور ان کے اقارب واصحاب کو خوب حصے پہنچتے ہیں۔
فصلِ ہشتم: من جملہ ان رسوم کے بعض مدارس کی یہ رسم ہے کہ جب طالب علم نے کتابیں پڑھ لیں، خواہ اس کو استعداد ہو یا نہ ہو اور خواہ اپنے علم کے موافق عامل ہو یا نہ ہو اس کو سندِ فضیلت دے دیتے ہیں اور دستار بندی کردیتے ہیں۔ غور کرنا چاہیے کہ رسمِ دستارِ بندی واقع میں اساتذہ مشائخ کی طرف سے عوام کے رُوبرو اس امر کا اظہار اور شہادت ہے کہ یہ شخص ہمارے نزدیک اس قابل ہے کہ دین میں اس کی طرف رجوع کیا جاوے اور اس سے مسائل پوچھ کر عمل کیا جاوے۔ خلاصہ یہ کہ یہ شخص آج سے مقتدائے دین ہے۔ جب حقیقت اس کی یہ ہے تو جو شرائط شہادت کی ہیں وہ اس میں بھی ہونا واجب ہے۔اور شہادت کی بڑی شرط یہ ہے کہ شاہد کو اس امر کا پورا علم اور یقین ہوکہ جس کی شہادت دے رہا ہے وہ صحیح ہے ، تاکہ اس کو جھوٹ کا گناہ اور دوسروں کو دھوکا دینے کا گناہ نہ ہو اور کسی کو اس سے ضرر نہ پہنچے، اسی طرح یہاں بھی اس شخص کی نسبت پوری تحقیق ہونا چاہیے کہ قابل مقتدا فی الدین بننے کے ہے یا نہیں۔ اگر ُعلمائے حاضرین کو اس پر پورا اطمینان ہو اور اس کی حالت علمی وعملی قابلِ قناعت ہو تو دستار بندی بہت خوب رسم ہے کہ اس میں اظہار ناواقفوں کے رُوبرو ہوجاتاہے۔ بشرطے کہ تکلّفاتِ زائد جس میں رِیا و اسراف لازم آوے نہ کیے جاویں، بلکہ اگر واعظوں کے لیے بھی کوئی ایسی شرط ہوجاوے کہ بلا امتحان و سند ۔ُعلما کے وعظ نہ کہنے پاویں اور عوام بھی بدون پیش کرنے سند کے کسی اجنبی کا وعظ نہ سنا کریں تو بڑی ضروری مصلحت کی بات ہے۔ اس سند ودستار بندی کی یہ حکمت ہے اور بدون اہلیت کے ہرگز ہرگز دستار بندی نہ کی جاوے ، نہ سند دی جاوے کہ بجز اضلالِ خلق کے اس کا اور کیا ثمرہ ہے۔
فصلِ نہم:من جملہ ان رسوم کے تبرکات کی زیارت ہے، جس میں اکثر عوام کا مجمع زیادہ ہوتاہے۔ اس میں بھی بکثرت بے احتیاطیاں ہوتی ہیں:
۱۔ بعض جگہ تو تبرکات ہی بے اصل ہیں۔ حضور۔ُپر نور ﷺ کی طرف غلط نسبت کرنا کس قدرموجبِ وعید ہے۔ اسی طرح اولیاء اللہ وبزرگانِ دین پر افترا کرنا بھی جھوٹ تو ضرور ہے، بلکہ بعض تبرکات کے غلط تو ہونے پر دلیلِ عقلی یا نقلی شہادت دیتی ہے، چناں چہ قدم شریف کے قصے کا اکثر محدثین نے انکارکیا ہے۔ اور بعض قرآن اعراب لگائے ہوئے