فصلِ پنجم:من جملہ ان رسوم کے منگنی کی رسوم ہے، جس کو ’’قیامتِ کبریٰ‘‘ یعنی شادی کی تمہید ہونے کی وجہ سے ’’قیامتِ صغریٰ‘‘ کہنا زیبا ہے۔ اس میں یہ واقعات ہوتے ہیں:
۱۔ جب منگنی ہوتی ہے تو خط لے کر نائی آتاہے۔ لڑکی والے کی طرف سے شکرانہ بناکر حجام کے رُوبرو رکھا جاتاہے۔ اس میں بھی وہی غیر لازم امر کا اپنے ذمے لازم کرلینا ہے کہ فرض وواجب ٹل جاوے، مگر یہ نہ ٹلے۔ ممکن ہے کہ کسی کے گھر میں اس وقت دال روٹی ہو، مگر جہاں سے ہو شکرانہ کرو، ورنہ منگنی مشکوک ہوگئی، لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ، اور التزام ما لا یلزم اور تعد۔ّی حدودِ شرعیہ کا ہونا مذکور ہوچکا ہے، ایک تو یہ امر خلافِ شرع ہوا۔ پھر اس بے ہودہ امر کے لیے اگر سامان موجود نہ ہو تو قرض لینا جس کا بلا ضرورت لینا ممنوع اور ایسے ہی قرض پر وعید آئی ہے، گو قلیل ہی قرض ہو، دوسرا امر خلافِ شرع یہ ہوا۔
۲۔ حجام کو کھانا کھلاکر خوان میں سو روپیہ یا جس قدر لڑکی والے نے دیے ہوں ڈال دیتا ہے، لڑکے والا اس میں سے ایک یا دو روپیہ اٹھاکر باقی واپس کردیتاہے اور یہ روپیہ اپنے
کمینوں کو تقسیم کردیتاہے۔ بھلا یہ سوچنے کی بات ہے کہ جب ایک یا دو روپیہ لینا دینا منظور ہے تو خواہ مخواہ سو روپیہ کو کیوںکر تکلیف دی اور اس رسم کے پورا کرنے کے واسطے بعض اوقات بلکہ اکثر سودی روپیہ لینا پڑتاہے جو حدیث میں موجبِ لعنت ہے۔ اور اگر قرض بھی نہ لیا تو بھی بجز افتخار اور اظہارِ عظمت اس میں کون سی مصلحتِ عقلی ہے۔ جب یہ عادت سب کو معلوم ہوگئی کہ ایک دو سے زیادہ نہ لیا جاوے گا توپھر سوکیا ہزار روپیہ میں بھی وہ عظمت اور شان نہیں رہی۔ عظمت توجب ہوتی جب دیکھنے والے یہ سمجھتے کہ تمام روپیہ نذرکیا گیاہے، اب تو بجز تمسخر اور بازیچۂ طفلان کے اور کچھ نہیں۔ مگر لوگ کرتے ہیں اسی تفاخر اور عظمت کے دکھلانے کو اور افسوس کہ بڑے بڑے ۔ُعقلا جو اوروں کو عقل سکھاویں، اس رسم دشمنِ عقل میں گرفتار ہیں۔ غرض اس میں بھی اصل وضع کے اعتبار سے رِیا کا گناہ ہونا ظاہر ہے اور اوپر مذکور بھی ہوچکا ہے اور فعلِ لا یعنی کا مذموم ہونا بھی حدیث میں ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ’’آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ لا یعنی باتوں کو ترک کردے‘‘۔1 غرض افعال لا یعنی بھی مرضیٔ شارع ؑ کے خلاف ہیں۔ اور اگر سودی روپیہ لیا گیا تو اس کی وعید سب ہی جانتے ہیں۔غرض اتنی خرابیاں اس رسم میں موجود ہیں۔
۳۔ پھر لڑکی والا حجام کو ایک جوڑا مع کچھ نقد روپیہ کے دیتا ہے اوریہاں بھی وہی دل لگی کہ دینا منظور ہے ایک یا دو اور دکھلاویں سو۔ واقعی رواج عجب چیز ہے کہ کیسی ہی عقل کے خلاف کوئی بات ہو، مگر ۔ُعقلا بھی اس کو کرتے ہوئے نہیں