وبال پڑتاہے اور آخرت میں جزا بالمثل موجود ہے اور اجرت کا مجہول ہونا یہ دوسرا امر خلافِ شرع ہے۔ یہ تو اس کمیشن کی روانگی کے پھول کھلے۔ آگے تقسیم کا موجبِ رِیا ہونا محتاجِ بیان نہیں۔ پھر تقسیم میں جو انہماک ہوتا ہے اکثر نمازیں بانٹنے والیوں کی اُڑ جاتی ہیں اور وقت کا تنگ ہوجانا تو ضروری بات ہے، ایک امر خلافِ شرع یہ ہوا۔
اور جن کے گھر یہ حصے جاتے ہیں ان کے نخرے اور بلا عذرِ شرعی ہدیہ کا واپس کردینا محض کسی دنیوی رنج کی بنا پر یہ خود ایک امر شرع کے خلاف ہے، بلکہ قبول کرنا بھی اس رسم ریائی کی اعانت اور ترویج ہے، اس لیے یہ بھی شرعاً پسند نہیںہے۔ ایک خلاف یہ ہوا۔
غرض یہ سب خرافات واجب۔ُ۔ الترک ہیں۔ بس ایک کارڈ سے یا زبانی گفتگو سے پیغام نکاح کا ادا ہوسکتاہے۔ جانبِ ثانی اپنے طور پر ضروری امور کی تحقیق کرکے جب اطمینان ہوجائے ایک کارڈ سے یا زبانی وعدہ کرسکتاہے۔ لیجیے منگنی ہوگئی۔ اگر استحکام کے لیے یہ رسمیں برتی جاتی ہیں تو اوّل کسی مصلحت کے واسطے معاصی کا ارتکاب جائز نہیں۔پھر ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود ان قصوں کے بھی جہاں مرضی نہیں ہوتی ہے جواب دے دیتے ہیں، کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا۔
فصلِ ششم: من جملہ ان رسوم کے ’’قیامتِ کبریٰ‘‘ کی رسم ہے، جس کو عرف میں ’’شادی‘‘ کہتے ہیں۔ اور واقع میں ’’بربادی‘‘ کہنا لایق ہے اور بربادی بھی کیسی، دنیا کی بھی اور دین کی بھی۔ اس کا لقب ’’قیامتِ کبریٰ‘‘ رکھا گیا۔ اس کے ہولناک واقعات یہ ہیں:
۱۔ سب سے پہلے برادری کے مرد جمع ہوکر لڑکی والے کی طرف سے خط تعینِ تاریخ شادی کا لکھ کر نائی کو دے کر رخصت کرتے ہیں۔ یہ رسم ایسی ضروری ہے کہ چاہے برسات ہو، راہ میں ندی نالے پڑتے ہوں، جس میں حجام صاحب کے بالکل رخصت ہونے کا بھی احتمال ہو، غرض کچھ بھی ہو، مگر یہ ممکن نہیں کہ ڈاک کے خط پر اکتفا کریں یا حجام سے زیادہ کوئی معتبر آدمی جاتا ہو اس کے ہاتھ بھیج دیں۔ بتلائیے! شریعت نے جس چیز کو ضروری نہیں ٹھہرایا اس کو اس قدر ضروری سمجھنا کہ شریعت کے ضروری بتلائے ہوئے امور سے زیادہ اس کا اہتمام کرنا، انصاف کیجیے! شریعت کا مقابلہ ہے یا نہیں؟ اور جب مقابلہ ہے تو واجب۔ُ الترک ہے یا نہیں؟
اسی طرح مردوں کا اجتماع ضرور ہونا، اس میں یہی التماسِ مذکور ہے۔ اگر کہا جاوے کہ مشورہ کے لیے جمع کیا جاتاہے تو بالکل غلط ہے۔ وہ بے چارے تو خود پوچھتے ہیں کہ کون تاریخ لکھیں، جو پہلے سے گھر میں خاص مشورہ کرکے معین کرچکے ہیں وہ بتلا دیتے ہیں اور وہ لوگ لکھ دیتے ہیں۔ اور اگر مشورہ ہی کرنا ہے تو جس طرح اور امور میں مشورہ ہوتاہے کہ ایک دو