غرض یہ حرکت بھی محض بے معنی ہے، بلکہ بعض عوام کے طرزِ عمل سے تو یہ معلوم ہوتاہے کہ وہ خود ذاتِ طعام کو موجبِ ثواب سمجھتے ہیں۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ بعض نذر ونیاز میں آپ ہی کھاپی لیتے ہیں یا اغنیا احباب کو کھلا دیتے ہیں، جن کے دینے کو کوئی شخص بھی موجبِ ثواب نہیں جان سکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ دینے کھلانے کوموجبِ ثواب نہیں جانتے، ورنہ ایسے لوگوں کو دیا کرتے جن کے دینے کو ثواب جانتے، بلکہ خود ذاتِ طعام یا شیرینی میں ثواب سمجھتے ہیں تو یہ خودایک عقیدئہ فاسدہ ہے اور قرآن کے خلاف، جس سے توبہ کرنا واجب ہے۔ اگرکوئی کہے کہ ہم طعام کو موجبِ ثواب نہیں سمجھتے، مگر جب ہم نے نیت طعام کی کرلی تو نیت بھی تو عمل ہے، اس لیے ایصالِ ثواب بے معنی نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے مانا کہ نیت عمل ہے، مگر نیت کا ثواب بخشنا چاہتے ہو یا کھانا کھلادینے کا، کیوںکہ نیت کا ثواب اور ہے اور طعام کا ثواب اور،پھر یہ کہ نیت تو قبل کھانا پکانے کے بھی ہوگئی تھی اس وقت کیوں نہیں بخش دیا کرتے۔
غرض اس عادت کی بھی کوئی معقول وجہ نہیںہے۔ رواج کی پابندی ہے اور کچھ بھی نہیں۔ البتہ ایصالِ ثواب بطریقِ مشروع نہایت خوبی کی بات ہے۔ اس کا سیدھا طریقہ وہی ہے جو ان مفاسد کے بیان سے ذرا قبل مذکور ہو ا ہے کہ بلا تعین وپابندیٔ رواج حسبِ توفیق جو میسر ہومستحقین کو دے دے اور ثواب بخش دے۔
اس تقریر سے ان سب معمولات کا حکم معلوم ہوگیا۔ گیارہویں، سہ ماہی، توشہ وغیرہا کو بلا تقیید وبلا تخصیص وبلافسادِ عقیدہ تو بلا کلام جائز ہے اور قیودِ مکروہہ ومفاسدِ مذکورہ کے ساتھ بلا تردّد ناجائز ہے۔ اور قیودِ مباحہ کے ساتھ جس کو نہ خود ضرر ہو نہ اس کے فعل سے کسی اور کو ضرر ہو خفیہ طور پر اس کو گنجایش دی گئی ہے۔ اس کو بھی چاہیے کہ ان قیود میں گاہ گاہ تغیر و تبد۔ّل کردیا کرے، تاکہ کہیں سے اسی کے نفس میں یا شاید دوسرے کے نفس میں کوئی خرابی نہ پیدا ہوجاوے۔ مگر پھر بھی اطلاق کا طریقہ افضل ومسنون ہے، کیوں کہ اس طریقِ مباح ہی سے آخر خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں تو آیندہ بھی اندیشہ ہی ہے، اس لیے مقتضائے انتظام یہی ہے کہ ان قیود سے بالکل ہی احتیاط رکھے اور تجربہ سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ قیود کی پابندی میں اگر ابتدا میں بالفرض خلوص بھی ہو، مگر بعد چندے پھر اس کو نباہنے کے لیے کرنا پڑتا ہے اور نیت درست نہیں رہتی۔
فصلِ سوم: من جملہ ان رسوم کے شبِ براء ت کا حلوہ اور عید کی سویاں، عاشورۂ محرم کا کھچڑا اور شربت وغیرہ ہے۔ شبِ براء ت میں حدیث سے اس قدر ثابت ہے کہ حضور سرورِ عالم ﷺ بحکمِ حق تعالیٰ جنت البقیع میں تشریف لے گئے اور اموات کے لیے استغفار فرمایا۔ اس سے آگے سب ایجاد ہے۔ جس میں مفاسدِ کثیرہ پیدا ہوگئے ہیں: