ذریعہ جاہ ومال کا بنایا اس کا گناہ سر پر الگ رہا۔ اور جس طرح قرآن کا عوض لینا جائز نہیں اسی
طرح دینا بھی جائز نہیں، اس بنا پر یہ نخود وطعام تقسیم کرنے والا بھی اس الزام سے بری نہ رہا اور التزام و تعین۔ّ کی کراہت ان سب کے علاوہ ہے۔ اور بعض موقعوں پر پھول وغیرہ بھی تقسیم ہوتے ہیں، یہ صاف تشبّہ بالکفار ہے، اسی طرح ’’پنج آیت‘‘ میں بھی ہرشخص اپنی قرأت کا اظہار کرتاہے، اور رِیا کامعصیت ہونا ظاہر ہے، پھر وہی التزام اور تعیین کا قصہ اس میں بھی ہے۔
ششم: اکثر جگہ دستور ہے کہ کچھ معیّن تاریخوں میں یا ان کے قریب قریب آگے پیچھے کچھ کھانا پکاکر برادری میں تقسیم ہوتاہے اورکچھ مساکین کوکھلاتے ہیں اور اس کا ثواب ۔ُمردے کو بخشتے ہیں، اس میں بھی وہی قصہ رِیاو تفاخر کا ہے یقین اور اتباعِ رسم کی وجہ سے اس کی ایسی پابندی ہے کہ بعض اوقات قرض لے کر کرتے ہیں اور اگر کوئی ان سے کہے کہ جتنے دام اس میں ۔َصرف کرتے ہیں وہ دام خفیہ طور پر دے دو تو یہ ہرگز گوارا نہ ہو اور یہی خیال کریں کہ واہ! اس قدر خرچ بھی کیا اور کسی کو اطلاع بھی نہ ہوئی۔ اور اکثر ترکۂ مشترکہ میں سے یہ رسوم ادا کی جاتی ہے جس کا ممنوع ہونا ابھی بیان ہوچکا ہے، اس کے علاوہ اس میں برادری کا کیا حق ہے۔ غیر مستحقین کو دینا یہ بھی اضاعتِ مال ہے جس کی ممانعت حدیث وقرآن میں موجود ہے۔ اس قدر مفاسد اس تقسیمِ طعام میں مجتمع ہیں، اس لیے یہ بھی واجب۔ُ الترک ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیںکہ پھر ایصالِ ثواب کس طرح کریں؟ جواب یہ ہے کہ جس طرح سلفِ صالحین کرتے تھے، بلا تقیید و تخصیص اپنی ہمت کے موافق حلال مال سے مساکین کی خفیہ مدد کریں اور جو کچھ توفیق ہو بطورِ خود قرآن وغیرہ ختم کرکے اس کو پہنچا دیں یا قبرستان میں قبلِ دفن جو فضول خرافات میں وقت گزاردیتے ہیں، اس وقت کچھ کلمہ کلام ہی پڑھتے رہا کریں، بلکہ یہ وقت ۔ُمردہ کی زیادہ دست گیری کے قابل ہے۔
اورحدیث میں بھی ہے کہ حضور ۔ُپر نورﷺ نے حضرت سعد بن معاذ ؓ کو دفن کرکے کچھ تسبیح وغیرہ پڑھیں، جس سے ان کو ضیقِ قبر سے نجات ہوئی۔1
غرض ایصالِ ثواب سے کوئی منع نہیں کرتا، البتہ منکرات ومکروہات سے منع کرتے ہیں جن سے ثواب بھی نصیب نہیں ہوتا اور مال بھی برباد ہوتاہے۔
ہفتم: میّت کے گھر عورتیں کئی کئی بار جمع ہوتی ہیں اور وہاںپان چھالیہ اور کھانا کھاتی ہیں۔ اس میں کئی امر مکروہ جمع ہیں: اوّل تو کئی کئی بار تعزیت کرنا جس کو ’’دُ۔ّرِ مختار‘‘ میں تصریحا۔ً ممنوع لکھا ہے۔ اور عقل میں بھی تو یہ بات آتی ہے کہ بار بار غم کا یاد دلانا ایک نامعقول حرکت ہے۔ تعزیت کی غرض تو یہ ہے کہ یاد شدہ غم کو بھلا دیا جائے، نہ یہ کہ بھولے ہوئے غم