۔ُفقہا نے تصریح کی ہے کہ جو پانی پینے کے لیے وقف کے طور پر رکھا گیا ہے اس سے وضو کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر وقف کے یہی معنی ہیں تو مسجد کی اینٹیں بھی و قف ہیں، ان سے اپنا مکان بنالینا جائز ہونا چاہیے۔ وہاں کے کواڑ تختے سب وقف ہیں، یہ بھی لے جانا جائز ہونا چاہیے۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہ مِنْہُ۔ اسی طرح بعض قومیں بڑے بڑے مجمعوں کومسجد میں کھانا کھلاتی ہیں۔ گویامسجد چوپال ہے یا ان کی بیٹھک ہے۔ یہاں وہی مسئلہ یادکرنا چاہیے کہ مسجد اس کام کے لیے نہیں ہے۔ اس لیے یہ فعل ناجائز ہوگا۔
بلکہ ۔ُفقہا نے لکھا ہے کہ معلم لوگ جو تنخواہ لے کرقرآن وغیرہ پڑھاتے ہیں ان کومسجد میں لڑکے لے کر بیٹھنا جائز نہیں۔کیوں کہ مسجد عبادت گاہ ہے، تجارت گاہ نہیں۔ ان سب اُمور سے اجتناب ضروری ہے اور من جملہ احترامِ مسجد کے یہ بھی ہے کہ وہاں بدبو دار چیزنہ لے جاوے حتیٰ کہ مٹی کا تیل اس کے اندر نہ جلاوے، دیا سلائی اس کے اندر نہ کھینچے، باہر چراغ روشن کرکے اندر رکھ دے۔ تمباکو کھانے پینے والا جب تک خوب منہ کو صاف نہ کرلے اس میں داخل نہ ہو۔
فصلِ ششم: ایک رسم یہ ہے کہ اکثر قصبات میں عیدین کی امامت اور بعض جگہ جمعہ اورنمازِ پنجگانہ کی بھی موروثی ۔ِبنا پر دعویٔ ریاست کے چلی آتی ہے،خواہ امام صاحب میں اہلیت ہو یا نہ ہو۔ بعض جگہ تو امام قرآن بھی صحیح نہیں پڑھ سکتا۔ ایسی صورت میں تو نماز ہی سب کی باطل ہوگی اور اگر الٹا سیدھا صحیح بھی پڑھ لیا، مگر متقدی لوگوں کو اس کی امامت ناگوار ہے اور جبر۔ًا و کر۔ًہا بہ خیال احتمالِ فتنہ کے ساکت ہیں تو اس امام کو سخت گناہ ہوگا۔ جیساکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایسے امام کی نماز قبول نہیں ہوتی۔1
فصلِ ہفتم: ایک رسم یہ ہے کہ اکثرلوگ عیدین یا جمعہ میں یا اور نمازوں میں پہلے سے خود یا کسی نوکر چاکر دوست آشنا کی معرفت مسجد میں اپنا کپڑا یا تسبیح قبضے کے لیے رکھ دیتے ہیں اور آزادی اور بے فکری سے جب جی چاہتا ہے تشریف لے جاتے ہیں، سو یہ بات بالکل شریعت کے خلاف ہے۔
ہمارے حضور ﷺ سے صحابہ ؓ نے دریافت کیا کہ ہم حضور ﷺ کے لیے منیٰ میں پہلے خیمہ وغیرہ لگادیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’نہیں، کیوں کہ وہاں ٹھہرنے کا استحقاق اس کوحاصل ہے جوپہلے پہنچ جاوے‘‘ الخ۔ البتہ کسی جگہ جب آدمی بیٹھ گیا اور نمازہونے تک بیٹھے رہنے کا ارادہ کرلیا، اتفاقا۔ً درمیان میں عارضی طور پر اُٹھنا پڑے، مثلاً: وضو ٹوٹ گیا، کھنکار