کے موافق کرلیں، اس سے زیادہ نہ کریں۔
دربیان کیفیتِ ازدواج حضرات بناتِ مقدسات وازواجِ مطہراتِ نبویہ ﷺ
(ماخوذ از مدارج النبوۃ و کتبِ حدیث وغیرہ)
نکاح حضرت فاطمہ زہراء ؓ : اوّل حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق ؓ نے حضور ﷺ سے اس دولتِ عظمیٰ کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے صغرِ سنی کا عذر فرمادیا۔ پھر حضرت علی ؓ نے اپنے اہل وخواص کے اصرار سے بحسبِ بعض روایات حضراتِ شیخین کے ترغیب سے، شرماتے ہوئے خود حاضر ہوکر زبانی عرض کیا۔ آپ ﷺ پر فوراً وحی نازل ہوئی اور آپ نے ان کی عرض کو قبول کرلیا۔
مؤلف کہتا ہے: اس سے معلوم ہوا کہ منگنی میں یہ تمام بکھیڑے جو آج کل رائج ہیں سب لغو اور خلافِ سنت ہیں۔ پس زبانی پیغام اور زبانی جواب کافی ہے۔
اور اس وقت عمر حضرت فاطمہ ؓ کی ساڑھے پندرہ سال کی اور حضرت علی ؓ کی اکیس برس کی تھی۔
مؤلف: اس سے معلوم ہوا کہ اس عمر کے بعد توقف نکاح میں اچھا نہیں۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ دولہا و دُلہن کی عمر میں تناسب بھی ملحوظ رکھنا مناسب ہے اور بہتر یہ ہے کہ دولہا کسی قدر دلہن سے عمر میں بڑا ہو۔
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے انس ! جاؤ اور ابوبکرو عمر وعثمان وطلحہ وزبیر ؓ اور ایک جماعت انصار کو بلا لاؤ۔
مؤلف: اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کی مجلس میں اپنے خاص لوگوں کو مدعو کرنے میں کچھ مضایقہ نہیں۔ اور حکمت اس میں ہے کہ نکاح میں اشتہار واعلان ہوجائے جوکہ مطلوب ہے، مگراس اجتماع میں غلو ومبالغہ نہ ہو۔ وقت پر بلا تکلف جو دوچار آدمی قریب نزدیک کے ہوں جمع ہوجاویں۔ یہ سب صاحب حاضر ہوگئے۔ آپ ﷺ نے ایک بلیغ خطبہ پڑھ کر ایجاب و قبول کرایا۔
مؤلف: اس سے معلوم ہوا کہ باپ کا چھپے چھپے پھرنا یہ بھی خلافِ سنت ہے، بلکہ بہتر یہ ہے کہ باپ خود اپنی دختر کا نکاح پڑھ دے، کیوںکہ یہ ولی ہے، دوسرا وکیل ہے۔ ولی کو بہرحال وکیل سے ترجیح ہے۔
اور چار سو مثقال چاندی مہر مقرر کیا جس کی مقدار اس وقت انگریزی سکہ سے ۱۲ ماشہ کے روپیہ سے ڈیڑھ سو روپے ہوتے ہیں۔ کَذَا فِيْ تُحْفَۃِ الزَّوْجَیْنِ مِنَ الرَّسَائِلِ النَّبَوِیَّۃِ۔