حضرت علی ؓ کی طرف نسبت کیے جاتے ہیں۔ اس زمانہ میں یہ اعراب اصطلاحی نہ تھے، البتہ جہاں کوئی دلیل ۔ُمکذِ۔ّب نہ ہو ہم کو تکذیب کی حاجت نہیں۔ بالخصوص جہاں قرائن سے صدق غالب ہو وہ ظنًّا تبرک ہے۔ گو یقینا نہ سہی، کیوں کہ دلائل یقین کے مفقود ہیں۔
۲۔ زیارت کرانے پر معاوضہ لیا جاتاہے۔۔ُفقہانے تصریح کی ہے کہ ایسے اُمور پر معاوضہ لینا حرام اور رشوت ہے۔
۳۔ زیارت کے وقت اکثر مردوں عورتوںکا اختلاطِ جسمی یا نظری ہوجاتاہے۔ اس کا برا ہونا ظاہر ہے۔
۴۔ بعض تبرکاتِ نبویہ کے زیارت کرانے کے وقت عوام کے مجمع میں اشعارِ ندائیہ پڑھے جاتے ہیں، اور ہیئت بھی حضور ﷺ کی سی بنائی جاتی ہے جس سے عوام کو ایہامِ رونقِ افروزی حضور۔ُپرنور ﷺ کا احتمال ہوتاہے، اس عقیدے کی تفصیل فصلِ اوّل بحث عام قیام میں ہوچکی۔
۵۔ اس کا اہتمام و تداعی فرائض وواجبات سے زیادہ ہوتاہے اور محتاط کو نشانۂ ملامت بناتے ہیں، یہ صریح تعدّیٔ حدود ہے۔ اس لیے مناسب یہ ہے کہ اس ہیئت سے زیارت نہ کی جاوے، بلکہ خلوت میں یا جلوت خاص میں بلا پابندی ان رسوم کی زیارت سے مشرف ہوجاوے اور کبھی کبھی بلا تعیّنِوقت بطور خدمت کے خادم تبرکات کی خدمت میں کچھ پیش کردیا کرے، اس کامضایقہ نہیں۔
فصلِ دہم: من جملہ ان رسوم کے مساجد کی زینت وتکلف ہے جو اعتدال سے خارج ہو۔ ۔ُفقہا نے فرمایا ہے اور عقل میں بھی یہ بات آتی ہے کہ مساجد کے استحکام کے لیے اہتمام و ۔َصرف کرنا تو مضایقہ نہیں، مگر زیب و زینت ونقش ونگار نہ کرے، بلکہ اگرمالِ وقف سے کرے گا تو متولی کو اپنے گھر سے اتنا روپیہ بھرنا پڑے گا۔ اور واقعی اگر غور کرکے دیکھا جاوے کہ مسجد کس غرض کے لیے شرعا موضوع ہوئی ہے، غرض یہی ہے کہ اس میں عبادت کی جاوے اور عبادت کی رُوحِ اعظم حضورِ قلب و خشوع ہے، تو لا محالہ جو چیز مخل۔ّ ۔ِ خشوع ہوگی وہ مخل۔ّ ۔ِ عبادت ہے اور وہ موضوعِ مسجدکے خلاف ہے تو ضرور مسجدمیں اس کا منضم کردینا ممنوع ہونا چاہیے۔
اسی واسطے حدیثِ بخاری میں حضرت عمر ؓ نے مسجدِ نبوی کے مستری کو رنگ آمیزی کرنے سے منع فرمایا۔ اور یہی وجہ بیان فرمائی کہ اس میں لوگوں کے دل کومشغولی ہوگی، گویا عبادت گاہ تماشا گاہ بن جاوے گی، واقعی کس قدر قلبِ موضوع ہے۔ اور حدیثِ ابوداود میں ایسی زیب وزینت کو یہود ونصاریٰ کا فعل بتایا گیا ہے۔ ان کے ساتھ مشابہت کرنا بھی بالیقین برا ہے۔ پھر اس میں اسراف بھی ہے۔علاوہ اس کے اکثر تفاخرو شہرت کا قصد بھی ہوتا ہے اور اکثر اس قدر تکلف کے