شیطانی خیالات ہیں۔
سخت افسوس ہے کہ بعضے طالب علم عربی پڑھنے والے اس بلا میں مبتلا ہیں۔ ان کی شان میں بجز اس کے کیا کہا جائے کہ: ’’چار پائے بروئے کتابے چند۔‘‘
ان لوگوں پر سب سے زیادہ وبال پڑتاہے۔ اوّل تو اوروں سے زیادہ واقف، پھر اوروں کو نصیحت کریں، مسئلے بتائیں، خود بد عمل ہوں، عالم بے عمل کے حق میں کیا کیا وعیدیں قرآن وحدیث میں وارد ہیں، پھر ان کو دیکھ کر اور جاہل گمراہ ہوتے ہیں، ان کی گمراہی کا وبال انہی کے برابر ان پر پڑتاہے، جیساکہ اوپر بیان ہوا کہ جو شخص باعث ہوتاہے کسی گناہ کا وہ بھی شریک اس کے وبال کا ہوتاہے۔ میرے نزدیک مدرسین ومہتممینِ مدارسِ اسلامیہ پر واجب ہے کہ جوطالب علم ایسی حرکت کرے یا کوئی اور امرِ خلافِ وضع شرعی کرے، اگرتوبہ کرے فبہا، ورنہ مدرسہ سے خارج کردینا چاہیے۔ ایسے شخص کو مقتدائے قوم بنانا تمام مخلوق کو تباہ کرنا ہے:
بے ادب را علم وفن آموختن
دادنِ تیغ ست دستِ راہزن1
اوریاد رہے کہ نائی کو بھی جائز نہیں کہ کسی کے کہنے سے ایسا خط بنائے جو شرعًا ممنوع ہو، خواہ ڈاڑھی کا ہو یا سر کا، کیوں کہ گناہ کی اعانت بھی گناہ ہے۔ اس کو چاہیے کہ انکار کرے۔
فصلِ پنجم: من جملہ ان رسوم کے ڈاڑھی کا خضاب کرنا ہے۔ حضرت ابنِ عباس ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: ’’آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے کہ سیاہ خضاب کریں گے، جیسے کبوتر کا سینہ، ان لوگوں کو جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی‘‘۔1روایت کیا اس کو ابوداود اور نسائی نے۔
اور عقل بھی اس فعل کے قبح کو مقتضی ہے، کیوںکہ سیاہ خضاب کرکے اپنے بڑھاپے کو چھپاتا ہے اور دیکھنے والے کو دھوکا دیتا ہے اور فطرتِ الٰہی کو بدلنا چاہتا ہے اور یہ سب امور قبیح ہیں۔ ابوداود میں روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: ’’سفید بال مت نوچو، پس بلا شبہ وہ نور ہے مسلمان کا‘‘۔2 اور حدیث میں بعضے عورتوں پر لعنت آئی ہے جو اپنے سنگھار کے واسطے اپنی خلقی وضع کو بدلیں۔ اور ا س کے آخر میں یہ الفاظ ہیں: اَلْمُـغَیِّرَاتُ لِخَلْقِ اللّٰہِ۔3۔ یعنی جو بدلنے والیاں ہیں اللہ تعالیٰ کی قدرتی بنائی ہوئی ہیئت کو۔ سفید بال نوچنے کی ممانعت سے بڑھاپے کو چھپانے کی برائی اور دوسری حدیث سے قدرتی وضع کو بدلنے کی برائی معلوم ہوئی۔ سیاہ خضاب میں یہ دونوں باتیں موجود ہیں اس لیے عقلاً بھی ممنوع ہوا۔
بعضے لوگ کہتے ہیں کہ وسمہ کا سیاہ خضاب اس سے مستثنیٰ ہے کہ حدیث میں مہندی اور نیل کے خضاب کی اجازت آئی ہے