کامذموم ہونا سب جانتے ہیں۔
۵۔ پھر تقسیم کے وقت جو کچھ دھول دھپا، شوروغل، گالی گلوچ ہوتاہے وہ سب کو معلوم ہے۔ اسی طرح اور بہت سی خرابیاں ہیں، البتہ شکریہ کے واسطے اگر دل چاہے حسبِ گنجایش بلا اعلان جوکچھ میسر ہو نقد یا غلہ یا طعام یا شیرینی مستحقین کو بلا پابندی دے دینا بہت مستحسن ہے۔
ششم: مساجد میں ہر روز اور ختم کے روز کثرت سے روشنی کرنا، اس میں بہت سی مکروہات ہیں:
۱۔ اسراف کہ اس قدر تیل اور بتی مفت ضائع ہوجاتاہے۔ اگریہی رقم مسجد کے کسی ضروری کام ڈول، رسی، فرش، لوٹاوغیرہ میں ۔َصرف کی جاوے تو کس قدر مدد پہنچے اور اسراف کا حرام ہونا بار بار مذکور ہوچکاہے۔
۲۔ اکثر روشنی کرنے والوں کی نیت وہی ناموری ہوتی ہے کہ فلاں شخص نے ایسا اہتمام کیا۔
۳۔ مسجد تماشا گاہ بنتی ہے۔ عبادت گاہ کا تماشاگاہ بنانا کس قدر معیوب ہے۔
۴۔ نمازیوں کی توجہ اس طرف مبذول رہتی ہے۔ نماز میں دل بٹتا ہے۔ خشوع فرض ہے، جو چیزمخلِ خشوع ہوگی بلاشک مذموم ہوگی۔ بالخصوص مہتمم کی طبیعت بالکل اس میں مشغول رہتی ہے کہ فلاں چراغ بجھتا ہے، فلاں بھڑکتا ہے ، فلاں کو اُبھارنا چاہیے، فلاں کو کم کرنا چاہیے، نماز و ماز خاک نہیں ہوتی۔
ہفتم: بعض جگہ شب ہائے قدر میں لوگ جمع ہوکر شب بے داری کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ اس کامکروہ ہونا فصلِ سوم میں بیان ہوچکاہے۔ اتفاقا۔ً اگر دوچار آدمی جمع ہوجائیں وہ اور بات ہے۔ غرض بطورِ خود ہر شخص حسبِ ہمت عبادت میں مشغول رہے۔ خاص اہتمام اور جمعیت خلافِ شرع ہے۔
فصلِ ششم: من جملہ ان رسوم کے بعض عورتوں کا یہ معمول ہے کہ رمضان المبارک میں حافظ کو گھر بلاکر اس کے پیچھے قرآنِ مجید سنتی ہیں۔ اس میں علاوہ ان مفاسد کے جوبابِ دوم میں عورتوں کے جمع ہونے میں لکھے گئے ہیں، یہ مفاسد زائدہیں:
۱۔ جو شخص قرآنِ مجید سناتاہے حتی الامکان آواز کو بناکر لہجہ کو دلکش کرکے پڑھتا ہے۔ مردوںکا ایسا نغمہ عورتوں کے کان میں پڑنا بلا شک موہمِ فتنہ وفسادِ قلب ہے۔ حدیثِانجشہ میں اس کی دلیل واضح ہے۔
۲۔ عورتوں کے مزاج میں چوںکہ بے احتیاطی ہوتی ہے، اس لیے سلام پھیر کر پکار پکار کر باتیں کرتی ہیں اور امام صاحب سناکرتے ہیں۔ بلا ضرورت عورتوں کو اپنی آواز اجنبی مردوں کے کان میں ڈالنا شر۔ًعا ناپسندیدہ ہے۔