معقولات کے تو۔ّغل سے اکثر فسادِ عقیدہ اور نخوت وکبر و عدم مبالاۃ فی الدین وغیرہ یہ خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس عارض کی وجہ سے کہ مثل لازم ہے، وہ بھی حرام ہوگا۔ اگریہ اُمور بھی نہ ہوں تو اکثر نیت اس کی تحصیل سے مباہات و حصولِ جاہ ہوا کرتاہے کہ کوئی شخص ناقص التحصیل سمجھ کر حقیر نہ جانے تو اس حالت میں ذریعۂ معصیت ہونے سے معصیت ہوجائے گا، البتہ اگر ان سب غوائل سے پاک ہو تو مضایقہ نہیں، مگر قدرِ ضروری پر اکتفا کرنا واجب ہوگا۔
فصلِ نہم: من جملہ ان رسوم کے مصنّفین اور اہلِ مطابع کا حقِ تالیف یا تحشیہ بیچنا یا خریدنا یا رجسٹری کرانا ہے۔ چوںکہ حقِ محض شرعًا مملوک نہیں، جیسا کہ اہلِ حدیث وفقہ پر ظاہر ہے۔ اس لیے اس میں کوئی تصرف مالکانہ کرنا اور دوسروں کو اس سے منتفع ہونے سے روکنا، سب حرام اور معصیت ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے کہ ’’مت کھاؤ اپنے مالوں کو آپس میں غیر مشروع طریقہ سے‘‘۔1
فصلِ دہم: من جملہ ان رسوم کے اکثرتاجروں اور ثقہ لوگوں کا بلکہ بعض اہلِ علم واہلِ فقر کا کھیل تماشوں کے مجمع میں تفریح کے لیے چلا جانا ہے، مثل: گھوڑ دوڑ، اکھاڑہ، کشتی، نمایش گاہ و میلۂ ہنود یا تھیڑ وغیرہم، چوںکہ ایسے مجمعوں میں اکثر امور خلافِ شرع واقع ہوتے ہیں۔ ڈھول نقارہ وغیرہ سے خالی نہیں ہوتے، بازار عورتوں کی آمد ورفت سے پاک نہیں ہوتے۔ گھوڑ دوڑ میں قمار بھی ہوتا ہے۔کشتی میں گھٹنا، ران پہلوانوں کے کھلے ہوتے ہیں۔ میلۂ کفار میں تو کفریات کا اجتماع محتاجِ بیان نہیں، اس لیے ایسے مجمعوں میں جانا معاصی وکفریات کی تائید اور ترویج کرنا اور مجمعِ فسق و فجور بڑھانا ہے۔
حدیث میں ہے: ’’جو شخص بڑھائے مجمع کسی قوم کا وہ ان ہی میں سے ہے‘‘۔ حتی کہ رسولِ مقبول ﷺ نے صحابہ ؓ کو لبِ سڑک بیٹھک مقرر کرنے سے منع فرمایا تھا، کیوںکہ ایسے مواقع میں آدمی معصیت سے بچ نہیں سکتا۔ اسی طرح قربِ قیامت میں ایک لشکر کے دھنسنے کی حضور ﷺ نے خبر سنائی جو خانہ کعبہ کی اہانت کے لیے آتا ہوگا۔
حضرت عائشہ ؓ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! ان میں تو دکان دار لوگ بھی ہوں گے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت سب دھنس جاویں گے۔1 تاجرو! شاید تم ضرورت کا عذر کرتے ہو تو حدیث سن لو۔ {وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ O}2 آیت قرآنی پڑھ کر اپنی تسلی کرلو۔