وضو بالاجماع3 باطل ہوگیا، مگر اس نے بے وضو نماز ٹرخائی۔ اسی طرح ہزاروں خرابیاں دین کے اندر لازم آئیں گی۔ اسی وجہ سے ۔ُعلمائے معتبرین نے اجماع کیا ہے کہ ایک مذہبِ معین کی تقلید واجب ہے، تاکہ دین میں خبط نہ کرے اور بندئہ نفس نہ بن جائے۔ پھر یہ کہ امام شافعی ؒ کا یہ قدیم قول ہے اور اس میں بھی انہوں نے یہ شرط ٹھہرائی کہ کثرت سے نہ ہو اور اس میں ایسا انہماک نہ ہو کہ نماز اپنے وقت سے ٹل جائے، سو ظاہر ہے کہ یہ شرطیں کہیں بھی نہیں پائی جاتیں۔ پھر یہ کہ اس سے بھی امام شافعی ؒ نے رجوع فرمایا ہے۔ چناںچہ کتاب ’’نصاب الاحتساب‘‘ میں ’’خلاصہ‘‘ سے نقل کیا ہے، اب کسی حال میں امام شافعی ؒ کے مذہب کو آڑ بناکر کھیلنے کی گنجایش نہیں رہی اور اس میں ایسا انہماک ایسا وبال ہے کہ خدا کی پناہ!
’’جوابِ کافی‘‘ میں ایک شاطر کی حکایت لکھی ہے کہ سکراتِ موت میں اس سے کلمہ پڑھنے کو کہا گیا، بجائے کلمہ کے کہتا ہے کہ ’’شہ رخ تجھ پر غالب ہو‘‘ اور فورًا مرگیا۔ بات یہ ہے کہ جب کوئی چیز دل میں رچ جاتی ہے اور رگ وپے میں سما جاتی ہے، مرتے وقت اس کا غلبہ ہوتاہے اور اسی دھندے میں آدمی مرتاہے۔ ع
چو میرد مبتلا میرد، چوں خیزد مبتلا خیزد
کبوتر بازی: اب کبوتر بازی کی نسبت سنیے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ ایک کبوترکے پیچھے دوڑا جارہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ایک شیطان دوسرے کے پیچھے پیچھے جارہا ہے‘‘۔1 روایت کیا اس کو احمد اور ابوداود اور ابنِ ماجہ اور بیہقی نے۔ پھر کبوتر بازوں کی عادت دوسروں کے کبوتر پکڑنے کی بھی ہے۔ یہ سراسر ظلم و غصب ہے، جس کی نسبت حدیثوں میں آیا ہے کہ اگر کسی کا حق کسی کے ذمہ رہ گیا ہوگا تو قیامت کے روز ظالم کی نیکیاں مظلوم کو اور مظلوم کے گناہ ظالم کو دئیے جاویں گے، پھر ظالم دوزخ میں ڈالا جاوے گا۔2 اور اگر کوئی کبوتر بازیوں کہے کہ دوسرے بھی ہمارا کبوترپکڑلیتے ہیں، ہم نے اس کا پکڑلیا تو کیا مضایقہ ہے؟ سو سمجھنا چاہیے کہ یہ مبادلہ اس وقت صحیح و معتبر ہے جب باہمی رضامندی کے ساتھ ہو اور تمام شرائط انعقادِ بیع کی موجود ہوں، جس طرح تمام دنیا میں خریدوفروخت ہوتی ہے، اور یہ چھینا جھپٹی کا مبادلہ سراسر ظلم ہے۔ کبھی ایک شخص ظلم میں بڑھ گیا،کبھی دوسرا، اور جس نے ظلم کم کیا ہے اس کی بھی نیت تو آخر خراب ہی رہتی ہے کہ جس قدر زیادتی ہوسکے دریغ نہ کروں، گو قابو نہ پڑنے کی وجہ سے مجبور ہے۔ موجب ظلم زائد کی نیت کرلی اس کا گناہ لکھا گیا، خواہ اس کھیل پر قادر ہوا یا نہ ہوا۔ حدیث میں ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’جب دو مسلمان ناحق آپس میں لڑیں اور ایک دوسرے کو قتل کردے تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں‘‘۔ کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! قاتل کا دوزخ میں جانا تو سمجھ میں آگیا، مگر مقتول کے جانے کی کیا وجہ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’جی تو اس کابھی یہی چاہتا تھا کہ اپنے مقابل کو قتل کرے‘‘۔ 1