ارشاد ہے: ’’أعفوا اللحی‘‘ وارد ہے، جس کے معنی ہیں چھوڑ دو اور لٹکاؤ ڈاڑھی۔
چوںکہ امر حقیقۃً وجوب کے لیے ہوتا ہے پس نیچے کو چھوڑنا ڈاڑھی کا واجب ہوا اور اس واجب کا ترک حرام ہوا۔ ظاہر ہے کہ ڈاڑھی چڑھانے میں اس واجب کا ترک لازم آتاہے۔ اس لیے وہ حرام ہوا۔ اور ابوداود کی حدیث میں ہے کہ حضور پرنور ﷺ نے حضرت رویفع سے فرمایا کہ ’’شاید میرے بعد تمہاری عمر زیادہ ہو تو لوگوں کو خبر دے دینا کہ جو شخص ڈاڑھی میں گرہ لگاوے اور فلاں فلاں کام کرے، پس بلا شک محمدﷺ اس سے بیزار ہیں‘‘۔1 گرہ لگانے میں ڈاڑھی اپنی اصلی ہیئت سے بدلتی ہے اور اس میں بل پڑتاہے۔ جہاں یہ امر پایاجائے گا وعید مطلق ہوگی۔ ڈاڑھی چڑھانے میں ہیئت کا بدلنا اور اس میں بل پڑنا ظاہر ہے۔ عقلاً بھی غور کیا جاوئے تو وہ ہیئت تکبر کی ہے۔ تکبر اور اس کی ہئیتوں کا حرام ہونا قرآن وحدیث میں منصوص ہے۔ بہر حال عقلاً و نقلاً یہ عادت مذموم ہے۔ اس سے توبہ کرنا واجب ہے۔
فصلِ ہفتم: من جملہ ان رسوم کے سربیچ میں سے کھلوانا یا آگے سے بال لینا جس کو عربی میں ’’قزع‘‘ کہتے ہیں۔ اور خود حدیث میں اس کی تفسیر آئی ہے کہ کہیں سے منڈادیا جاوے اورکہیں سے چھوڑدیا جاوے۔ ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ ’’قزع‘‘ سے ممانعت فرماتے ہیں۔ بعضے یوں سمجھتے ہیں کہ بڑوں کے لیے بے شک ممنوع ہے، مگر بچوں کے لیے کیا حرج ہے، وہ غیر مکلف ہیں، یہ خیال بالکل باطل ہے، اگربچے غیر مکلف ہیں تو گناہ گار نہ ہوں گے، مگر ان کے بزرگ تو غیر مکلف نہیں، ان کو گناہ ہوگا کہ بچوں کا ایسا سر کیوں بنوایا۔ اور حدیث میں ہے کہ رسول مقبول ﷺ نے ایک لڑکے کو دیکھا کہ اس کا کچھ سر منڈا ہے اور کچھ رہ گیا ہے۔ آپ ﷺ نے ان لوگوںکو منع فرمایا کہ ’’یا تو سب منڈواؤ یا سب رہنے دو‘‘۔2 روایت کیا اس کو ابو داود نے۔
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں: ایک تو خود اس فعل کا مذموم ہونا۔ دوسرے آپ ﷺ نے بچہ سمجھ کر خاموشی نہیں اختیار فرمائی، بلکہ اس کے والی وارثوں کو منع فرمایا، جس سے ثابت ہوا کہ بچوں کے لیے بھی اجازت نہیں۔
فصلِ ہشتم: ٹخنوں سے نیچے پائجامہ یا لنگی پہننا یا بہت لمبی آستین بنانا یا بہت لانبا شملہ چھوڑنا۔ حدیث بخاری ومسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’نظر ِرحمت نہ فرماوے گا اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف جو اپنی ازار کو اترانے کی راہ سے نیچے لٹکائے‘‘۔1 دوسری حدیث میں اس لٹکانے کی حد آئی ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے: ’’جو ازار