۱۱۔ جن جن لوگوں کو دور دور اطلاع ہوتی ہے اور وہ مبارک باد کے خطوط بھیجتے ہیں ان کو بھی ایسا ہی گناہ ہوتا ہے جیساکہ شرکائے مجلس کو۔ ابوداود میں ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ’’جو شخص گناہ میں شریک نہ ہو، مگر اس سے راضی ہو وہ مثل اس شخص کے ہے جو اس میں شریک و حاضر ہو‘‘۔5 اور اسی طرح کی بہت خرابیاں اس میں جمع ہیں جن کے بیان کی حاجت نہیں، صاف ظاہر ہے۔
بعضے لوگ کہتے ہیں کہ ’’صاحب کیا کریں، لڑکی والا نہیں مانتا، باصرار فرمایش کرتا ہے‘‘۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ اگر لڑکی والا کسی ایسی بات کے لیے زور ڈالے جو تم کو ناگوار گزرے، فرض کرو یونہی کہے کہ تم اپنی ماں بہن کو لاکر نچاؤ گے تو ہم لڑکی دیں گے ورنہ نہ دیں گے۔ اس وقت یہ لوگ کیا کریں گے؟ اس بے عزتی کو محض لڑکی لینے کی ضرورت سے گوارا کریں گے، یا نہایت برہم ہوکر غیظ وغضب میں آکر مرنے مارنے کو تیار ہوجاویں گے اور لڑکی نہ ملنے کی ذرا بھی پروا نہ کریں گے۔
مسلمانوں کا فرض ہے کہ شریعت نے جس چیز کو حرام ٹھہرایا ہے اس سے ایسی ہی نفرت ہونی چاہیے جیسی اپنی طبیعت کے خلاف امور سے ہوتی ہے، اور جیسے اس میں شادی ہونے نہ ہونے کی کچھ پروا نہیں ہوتی، اسی طرح خلافِ شرع اُمور میں بھی صاف جواب دینا چاہیے کہ خواہ شادی کرو یا نہ کرو، ہم ہرگز ناچ نہ ہونے دیں گے۔ غرض یہ کوئی عذر اور وجہ مجبوری کی نہیں۔ اسی طرح برادری اور احباب کو چاہیے کہ اگرکوئی شخص نہ مانے تو ہرگز اس کے ساتھ شرکت نہ کریں، صاف جواب دے دیں کہ جب تم کو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی پرواہ نہیں تو ہم کو تمہاری ناراضی کی پرواہ نہیں:
ہزار خویش کہ بے گانہ از خدا باشد
فدائے یک تن بے گانہ کاشنا باشد
فصلِ دوم: من جملہ ان رسوم کے اکثر نوجوانوں کو گنجفہ، شطرنج وغیرہ کھیلنے اور کبوتر بازی اور مرغ و بٹیر لڑانے اور کنکوا وغیرہ اڑانے کی عادت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں شراب وقمار کے حرام ہونے کو فرمایا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ شیطان یوں چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان میں عداوت اور بغض پیدا کردے اور تم کو اللہ کی یاد اور نماز سے دور کرے، سو ظاہر ہے کہ جب حرام ہونے کی علت یہ ٹھہری تو جس چیز میں یہ علت پائی جاوے گی اس کوحرام کہا جائے گا۔ ان سب کھیلوں میں جس قدر قلب کو مشغولی ہوتی ہے اس کو دیکھنے والے جانتے ہیں، جو بشری طبعی حوائج ہیںجیساکہ کھانا ،پینا، پیشاب، پائخانہ، اس کی خبر بھی نہیں رہتی، نماز کا تو کیا ذکر ہے اور ان کھیلوں کی بدولت اکثر آپس میں گالی گلوچ اور رنج وتکرار، بلکہ کبھی کبھی ہاتھا پائی کی بھی نوبت آجاتی ہے، پھر اس کے حرام ہونے میں کیا شبہ ہے؟