حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ’’تم میں ہر شخص کو لازم ہے کہ اپنی نماز
میں شیطان کا حصہ مقرر نہ کرے، وہ یہ کہ نماز کے بعد داہنی طرف سے پھرنے کو ضروری سمجھنے لگے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بسا اوقات بائیں جانب سے بھی پھرتے دیکھا ہے‘‘۔1 روایت کیا ہے اس کو بخاری ومسلم نے۔طیبی شارحِ مشکاۃ نے کہا ہے کہ اس حدیث سے یہ بات نکلی ہے کہ جو شخص کسی امرِ مستحب پر اصرار کرے اور عزیمت اور ضروری قرار دے لے اور کبھی رخصت پر یعنی اس کی دوسری شقِ مقابل پر عمل نہ کرے تو ایسے شخص سے شیطان اپنا حصہ گمراہ کرنے کا حاصل کرلیتاہے۔ پھر ایسے شخص کا تو کیا کہنا ہے جو کسی بدعت یا امرِ منکر یعنی خلافِ شرع عقیدہ یا عمل پر اصرار کرتاہو۔
صاحبِ مجمع نے فرمایا ہے کہ اس حدیث سے یہ بات نکلی کہ امرِ مندوب بھی مکروہ ہوجاتاہے اگریہ اندیشہ ہو کہ یہ اپنے رتبے سے بڑھ جاوے گا۔ اسی بنا پر ۔ُفقہائے حنفیہ نے نمازوں میں سورت مقرر کرنے کو مکروہ فرمایا ہے، خواہ اعتقا داًپابندی ہو یا عملاً۔ فتح القدیر نے اس تعلیم کی تصریح کردی ہے اور مسلم میں ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ’’مت خاص کرو شبِ جمعہ کو شب بید اری کے ساتھ اور شبوں میں سے، اور مت خاص کرو یومِ جمعہ کو روزہ کے ساتھ اور ایام میں سے‘‘۔2 ہاں! اگر اس کے کسی معمولی روزہ میں جمعہ ہی آپڑے تو وہ اور بات ہے۔
قاعدئہ دوم: فعل ِمباح بلکہ مستحب بھی کبھی امر ِغیر مشروع کے مل جانے سے غیر مشروع وممنوع ہوجاتاہے۔ جیسے دعوت میں جانا مستحب بلکہ سنت ہے، لیکن وہاں اگرکوئی امر خلافِ شرع ہو، اس وقت جانا ممنوع ہوجائے گا، جیسے احادیث میں آیا ہے، اور ہدایہ وغیرہ میں مذکور ہے۔ اور اسی طرح نفل پڑھنا مستحب ہے، مگر اوقاتِ مکروہہ میں ممنوع وگناہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امرِ مشروع بوجہ اقتران3 وانضمامِ غیر مشروع کے غیر مشروع ہوجاتاہے۔
قاعدئہ سوم: چوں کہ دوسرے مسلمان کو بھی ضرر سے بچانا فرض ہے، اس لیے اگر خواص کے کسی غیر مشروع فعل سے عوام کے عقیدے میں خرابی پیدا ہو تو وہ فعل خواص کے حق میں بھی مکروہ و ممنوع ہوجاتاہے۔ خواص کو چاہیے کہ وہ فعل ترک کردیں۔
حدیث شریف میں قصہ آیا ہے کہ حضور سرورِ عالم ﷺ نے حطیم کو بیت اللہ کے اندر داخل فرمانے کا ارادہ کیا، مگر اس خیال سے کہ جد۔ُیدالاسلام لوگوں کے عقیدے میں فتور اور قلوب میں خلجان پیدا ہوگا۔ اور خود بناکے اندر داخل ہونا