غرض یہ قافلہ مہمانوں کا اس گناہ کا بھی باعث ہوتاہے، اس لیے یہ مناسب ہے کہ جو مرد و عورت پاس کے ہیں وہ کھڑے کھڑے آویں اور تعزیت کرکے چلے جاویں،پھر دوبارہ آنے کی ضرورت نہیں، نہ کوئی تاریخ معیّن کرنے کی حاجت، جب جس کو فرصت ملے ہوجایا کرے، اور جو دور کے ہیں اگر سمجھیں کہ بدون ہمارے گئے ہوئے اہلِ مصیبت کو ہرگز صبر نہ آئے گا، تو اس مصلحت اور ضرورت سے آویں تو مضایقہ نہیں، ورنہ خط سے تعزیت ادا کریں کہ یہ بھی سنت ہے۔ رسولِ مقبول ﷺ نے تو حضرت معاذ بن جبل ؓ کو ان کے بیٹے کے مرنے میں خط ہی سے تعزیت فرمائی تھی۔
ہشتم: دستور ہے کہ اہلِ میّت کے لیے اوّل روز کسی عزیز قریب کے گھر سے کھانا آتا ہے، یہ فعل فی نفسہٖ جائز، بلکہ مسنون اور قرینِ مصلحت ہے۔ مگر اس میں چند مفاسد پیدا ہوگئے ہیں، ان کی اصلاح واجب ہے:
اوّل تو اس میں ادلابدلا ہونے لگاہے کہ انھوں نے ہمارے یہاںدیا تھا، ہم ان کے گھر دیں۔ یہ کوئی تجارت نہیں، محض غم زدوں کی دست گیری ہے اس میں غضب یہ ہے کہ قرض چلنے لگا۔
خلاصہ یہ کہ یہ ایک تبرع ہے اور تبرع میں جبر حرام ہے، جب ایک شخص نے محض رسم کی وجہ سے واجب الادا سمجھا تو یہ جبرِ صریح ہے۔ بعض اوقات جب گنجایش نہیں ہوتی، قرض لینے کی نوبت آتی ہے تو ایسی پابندی بلا شک مکروہ ہے۔ اس میں بے تکلّفی وسادگی مناسب ہے۔ جس عزیزکو توفیق ہو کھانا بھیج دے، نہ اس میں ادلے بدلے کی ضرورت ورعایت چاہیے اور نہ ترتیبِ قرابت کے لحاظ کی ضرورت ہے کہ ہائے فلاں کس طرح بھیجے، میں اس کی نسبت زیادہ نزدیک کا رشتہ دار ہوں، اس پر تکرار ہے، اصرار ہے، ہرگز دور کے رشتہ دار کو نہیں بھیجنے دیتے۔ مرتے ہیںمارتے ہیں، قرض کرتے ہیں اور بھیجتے ہیں، بس وہی مصیبت بدنامی مٹانے کی۔
دوم اہلِ میّت گو دو چار آدمی ہوں، مگر کھانا پکتا ہے دور تک کے کنبے کا، یہ بھی محض ۔ّحدِ شرعی سے تجاوز ہے ۔ اہلِ میّت پر چوںکہ غلبہ غم کاہوتاہے، اس لیے وہ پکانے کا اہتمام نہیں کرتے ہیں، سارے کنبہ پر ہرگز ایسا غلبہ نہیں ہوتا کہ ان کے چولہے بھی سرد ہوجاویں، ہرگز نہ ان کو کھانا جائز، نہ ان کے لیے پکانا جائز، بس مختصر سا کھانا کافی ہے۔
نہم: دستور ہے کہ قبر پر یا گھر پر حفاظ کو بٹھلاکر کہیں دس روز، کہیں چالیس روز یا کم وبیش قرآنِ مجید ختم کراتے ہیں۔ پھر ان کو کچھ اسباب کچھ نقد وغیرہ دیتے ہیں۔ تو اس کو لوگ کوشش کرکے درست بنانا چاہتے ہیں۔ مگر بات کھلی ہوئی ہے کہ جب مقصود جانبین کا اُجرت دینا لینا ہے اور طاعت پر اُجرت لینا جائز نہیں، اس لیے یہ فعل ہرگز درست نہیں، نہ ایسے قرآن پڑھنے کا ثواب ملے، جب پڑھنے والے کو نہ ملا تو ۔ُمردہ کو کیا پہنچے گا۔
بعض لوگوں کو شبہ پڑگیا ہے کہ آخر ضرورت کے واسطے متأخرین نے تعلیمِ قرآن پر اُجرت لینا جائز فرمایا ہے۔ جواب خود