کی برائی جدا جدا کئی کئی بار بیان ہوچکی ہے۔
فصلِ سوم: من جملہ ان رسوم کے آتش بازی ہے، اس میں متعدد خرابیاں جمع ہیں:
۱۔ مال کا ضائع کرنا، جس کا حرام ہونا قرآن مجید میں منصوص ہے۔
۲۔ اپنی جان کو یا اپنے بچوں کو یا پاس پڑوس والوں کو خطرہ میں ڈالنا۔ صدہا واقعات ایسے ہوچکے ہیں جس میں آتش بازوں کا ہاتھ اڑگیا، منہ جل گیا، یا کسی کے چھپر میں آگ لگ گئی، جس کی حرمت قرآن مجید میں منصوص ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے: ’’مت ڈالو اپنی جانوںکو ہلاکت میں‘‘۔1 اسی واسطے حدیث میں بلا ضرورت آگ کے۔َ تلبُّس و۔ُقرب سے ممانعت آئی ہے، چناںچہ کھلی آگ اور جلتا چراغ چھوڑ کر سونے کو منع فرمایا ہے۔
۳۔ بعض آلات آتش بازی میں کاغذ بھی صرف ہوتاہے، جو آلاتِ علم سے ہے اور آلاتِ علم کی بے ادبی خود امرِ قبیح ہے، چناںچہ اوپر بیان ہوا ہے۔ پھر غضب یہ ہے کہ لکھے ہوئے کاغذ بھی استعمال ہوتے ہیں خواہ اس پر کچھ ہی لکھا ہو، قرآن یا حدیث۔ چناںچہ مجھ سے ایک معتبر شخص نے بیان کیا کہ میں نے کاغذ کے بنے ہوئے کھیل دیکھے، دیکھنے سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کے ورق ہیں۔
۴۔ بچوں کو ابتدا سے تعلیم معصیت کی ہوتی ہے، جن کے واسطے شرعی حکم ہے کہ علم و عمل سکھاؤ، گویا نَعُوْذُ بِا للّٰہِ! حکمِ شرعی کا پورا مقابلہ ہے۔بالخصوص شبِ براء ت میں یہ خرافات کرنا جوکہ نہایت متبرک شب ہے۔ یہ بات مقرر ہے کہ اوقاتِ متبرکہ میں جس طرح اطاعت کرنے سے اجر بڑھتاہے، اسی طرح معصیت کرنے سے گناہ بھی زائد ہوتا ہے۔
۵۔ بعض آلاتِ آتش بازی اوپر کو چھوڑے جاتے ہیں، جیسے بیل اور بان و پورا۔ اوّل تو بعضوں کے سرپر آ گرتے ہیں اور لوگوں کے چوٹ لگتی ہے۔ علاوہ اس کے اس میں یاجوج ماجوج کی مشابہت ہے، جس طرح وہ آسمان کی طرف تیر چلاویں گے۔ کفار کی مشابہت حرام ہے۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں ایامِ حج میں تو توپیں چلتی ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ آتش بازی درست ہے، ورنہ وہاں کیوں ایسا کام ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو عام لشکریوں کا فعل شرع میں حجت نہیں، البتہ عالم محقق دین دار کا فتوی جو مطابق قواعدِ شرعیہ کے ہو حجت ہوتاہے۔ اور ظاہر ہے کہ توپیں وغیرہ چلانا لشکریوں کا فعل ہے نہ کسی عالم کا فتوی۔ دوسرے اس میں کچھ مصالح بھی نکل سکتے ہیں۔ اظہارِ شوکتِ اسلام وتعظیمِ شعائرِ حج واعلانِ ارکان وغیرہا اور آتش بازی میںکون سی شوکت ہے؟!البتہ کسی مقام پر ضروری اعلان کے لیے اصلاح ٹھہرا ئی جائے تو بقدرِ ضرورت جائز ہوگی،