۳۔ شہادت کا قصہ بھی بیان کرنا، یہ بھی فی نفسہٖ روایات کا ذکر کردینا ہے۔ اگر صحیح ہوں تو روایات کا بیان کردینا فی ذاتہٖ جائز ہے، مگر اس میں یہ خرابیاں عارض ہوگئیں:
۱۔ مقصود اس بیان سے ہیجان اور جلبِ غم اور گریہ وزاری کا ہوتا ہے۔ اس میں مقابلہ شریعت مطہرہ کا ہے، کیوں کہ شریعت میں ترغیبِ صبرمقصود ہوتا ہے اور تعزیت سے یہی مقصود ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ مزاحمت شریعت کی سخت معصیت اور حرام ہے۔ اس لیے گریہ وزاری کو بھی قصد۔ً ا یاد کرکے لانا جائز نہیں، البتہ غلبۂ غم سے اگر آنسو آجائیں تو اس میں گناہ نہیں۔
۲۔ لوگوں کو اس لیے بلایا جاتاہے اور ایسے اُمور کے لیے تداعی و اہتمام خود ممنوع ہے۔
۳۔ اس میں مناسبت اہلِ رفض کے ساتھ بھی ہے، اس لیے ایسی مجلس کا منعقد کرنا اور اس میں شرکت کرنا سب ممنوع ہے۔ چناںچہ مطالب المؤمنین میں صاف منع لکھا ہے اور قواعدِ شرعیہ بھی اس کے شاہد ہیں۔ اور یہ تو اس مجلس کا ذکر ہے جس میں کوئی مضمون خلاف نہ ہو، اور نہ وہاں نوحہ وماتم ہو اور جس میں مضامین بھی غلط ہوں یا بزرگوںکی توہین ہو یا نوحہ حرام ہو، جیسا کہ غالب اس وقت میں ایسا ہی ہے تو اس کا حرام ہونا ظاہر ہے۔ اور اس سے بدتر خود شیعہ کی مجالس میں جاکر شریک ہونا بیان سننے کے لیے یا ایک پیالہ فرینی اور دونان کے لیے۔
فصلِ چہارم: من جملہ ان رسوم کے وہ رسوم ہیں جو کسی کے مرنے میں برتی جاتی ہیں۔
اوّل: تجہیز وتکفین یا نماز میں اس وجہ سے دیر کرتے ہیں کہ فلاں عزیز شریک ہوجاوے یا جمعہ میں زیادہ مجمع ہوگا۔ وہاں نماز ہونا زیادہ اچھا ہے۔ سو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بالکل شریعت کے خلاف ہے۔ حدیث میں صاف حکم ہے کہ جنازہ میںہر گز دیر مت کرو۔ ۔ُفقہا نے بعض وقتی نمازوں سے اس کو مقد۔ّ م لکھا ہے اور اگر رونے پیٹنے میں دیر لگائی جاوے تو وہ اور بھی زیادہ برا ہے۔
دوم: بعض لوگ جنازہ کے ساتھ کچھ اناج اورپیسے وغیرہ لے جاتے ہیں اور اس کو وہاں خیرات کردیتے ہیں، سوچوںکہ یہ فعل بالیقین ناموری کے واسطے کیا جاتاہے، اس لیے خلافِ شرع ہے اور اکثر اس میں غیر مستحقین زیادہ جمع ہوجاتے ہیں، اس لیے اولیٰ یہ ہے کہ جو کچھ دینا ہو اپنے گھر پر خفیتاً مستحقین کو سوچ سمجھ کر دیں اور وہ بھی مشترک ترکہ سے نہ ہو، جیسا کہ آیندہ آتا ہے۔
سوم: اکثر کفن کے ساتھ جا نما ز اور اوپر کے ڈالنے کی چادر بھی ترکۂ میّت سے خریدی جاتی ہے۔ سوچوںکہ یہ دونوں چیزیں