لوگوں کو بطورِ معاوضہ کے دیتے لیتے ہیں اور نیت اس میں یہی ہوتی ہے کہ فلاں شخص نے ہمارے یہاں بھیجا ہے، اگر ہم نہ بھیجیں گے تو وہ کیا کہے گا، غرض کہ اس میں بھی وہی رِیا و تفاخر ہوجاتاہے۔
۷۔ بعض لوگ اس تاریخ میں مسور کی دال ضرور پکاتے ہیں۔ اس ایجاد کی وجہ آج تک معلوم نہیں ہوئی، لیکن اس قدر ظاہر ہے کہ مؤکد سمجھنا بلا شک معصیت ہے، یہ تو کھانے پکانے میں مفاسد ایجاد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آتش بازی کی رسم اس شب میں شامل ہے۔ اس کی نسبت بابِ اوّل میں بیان ہوچکا ہے۔ حاجتِ اعادہ نہیں۔
تیسرے زیادتی اس میں یہ کی گئی ہے کہ بعض لوگ شب بیداری کے لیے فرائض سے زیادہ اس میںلوگوں کو جمع کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہر چند کہ اجتماع سے شب بیداری سہل تو ہوجاتی ہے، مگر نفل عبادت کے لیے لوگوںکو ایسے اہتمام سے بلانا اور جمع کرنا یہ خود خلافِ شریعت ہے، جیسا اسی باب کی فصلِ اوّل میں بیان ہوچکا ہے۔ البتہ اتفاقاًکچھ لوگ جمع ہوگئے اس کا مضایقہ نہیں۔
۸۔ بعض لوگوں نے اس میں برتنوں کابدلنا اور گھر لیپنا اور خود اس شب میں چراغوں کا زیادہ روشن کرنا عادت کرلی ہے۔ یہ بالکل رسمِ کفار کی نقل ہے اور حدیثِ تشبہ سے حرام ہے۔
حدیث سے اس زمانہ میں تین امر ثابت ہوئے ہیں، ان کو بطورِ مسنون ادا کرنا موجبِ ثواب و برکات ہے: اوّل: پندرہویں شب کو گورستان میں جاکر اموات کے لیے دُعا و استغفار کرنا اور کچھ صدقہ وخیرات دے کر بھی اگر ۔ُمردوں کو اس کا ثواب بخش دیا جاوے تو وہی دُعا و استغفار اس کے لیے اصل نکل سکتی ہے کہ مقصود دونوں سے نفع رسانی اموات کی ہے، مگر اس میں کسی بات کا پابند نہ ہو، اگر وقت پر میسر ہو خفیہ کچھ دے دلا دے، باقی حدودِ شرعی سے تجاوز نہ کرے۔
دوم: اس شب میں بیدار رہ کر عبادت کرنا خواہ خلوت میں ہو یا دوچار آدمیوں کے ساتھ جن کے جمع کرنے کے لیے کوئی خاص اہتمام نہ کیا گیا ہو۔
سوم: پندرہویں تاریخ کو روزہ نفل، ان عبادتوں کو مسنون طور پر ادا کرنا نہایت احسن ہے۔
اور عید الفطر میں سویاں پکانا فی نفسہٖ مباح ہے، مگرلوگوں نے اس میں خرابیاں پیدا کرلی ہیں:
۱۔ اس کو ضروری سمجھتے ہیں ، حتی کہ اگر سویاں نہ پکائی جائیں تو گویا عید ہی نہیں ہوئی، ایسے التزام واہتمام کا خلافِ شرع ہونا اوپر مذکور ہوچکا ہے۔
۲۔ اس پابندی کی بدولت یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ اگر پاس خرچ نہ ہو تو قرض لے کر گو سودی ہی ملے ضرور اس کا اہتمام کرتے ہیں۔