۱۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور سرورِ عالم ﷺ کا دندانِ مبارک جب شہید ہوا تھا، آپ نے حلوہ نوش فرمایا تھا۔ یہ بالکل موضوع اور غلط قصہ ہے، اس کا اعتقاد کرنا ہر گز جائز نہیں، بلکہ عقلاً بھی ممکن نہیں، اس لیے کہ یہ واقعہ شوال میں ہوا نہ کہ شعبان میں۔
۲۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت امیر حمزہ ؓ کی شہادت ان دنوں میں ہوئی ہے، یہ ان کی فاتحہ ہے۔ یہ بھی محض بے اصل ہے۔ اور اوّل تو تعینِ تاریخ کی ضرورت نہیں۔ دوسرے خود یہ واقعہ غلط ہے۔ آپ کی شہادت بھی شوال میں ہوئی تھی، شعبان میں نہیں ہوئی۔
۳۔ بعض لوگ اعتقاد رکھتے ہیں کہ شبِ براء ت وغیرہ میں ۔ُمردوں کی روحیں گھر وں میں آتی ہیں اور دیکھتی ہیں کہ کسی نے ہمارے لیے پکایا ہے یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا امرِ خفی بجز دلیلِ نقلی کے اور کسی طرح ثابت نہیں ہوسکتا، اور وہ یہاں ندارد ہے۔
۴۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب شبِ براء ت سے پہلے کوئی مر جائے تو جب تک کہ اس کے لیے فاتحۂ شبِ براء ت نہ کیا جاوے وہ ۔ُمردوں میں شامل نہیں ہوتا۔ یہ بھی محض تصنیفِ یاراں اور بالکل لغو ہے، بلکہ رواج ہے کہ اگر تہوار سے پہلے کوئی مرجاوے تو کنبہ بھر میںپہلا تہوار نہیں ہوتا۔
حدیثوں میں صاف مذکور ہے کہ جب ۔ُمردہ مرتا ہے مرتے ہی اپنے جیسے لوگوں میں جا پہنچتا ہے، یہ نہیں کہ شبِ براء ت تک اٹکا رہتاہے۔
۵۔ حلوے کی ایسی پابندی ہے کہ بدون اس کے سمجھتے ہیں کہ شبِ براء ت ہی نہیں ہوئی۔ اس پابندی میں اکثر فسادِ عقیدہ بھی ہوجاتاہے کہ اس کو مؤکد ضروری سمجھنے لگتے ہیں۔ فسادِ عمل بھی ہوجاتا ہے۔ فرائض وواجبات سے زیادہ اس کا اہتمام کرنے لگتے ہیں اور ان دونوں کا معصیت ہونا فصلِ اوّل میں بالتشریح مذکور ہوچکا ہے۔ ان خرابیوں کے علاوہ تجربہ سے ایک اور خرابی ثابت ہوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ نیت بھی فاسد ہوجاتی ہے۔ثواب وغیرہ کچھ مقصود نہیں رہتا ہے۔ خیال ہوجاتاہے کہ اگر اب کے نہ کیا تو لوگ کہیں گے کہ اب کے خست اور ناداری نے گھیر لیا ہے، اس الزام کے رفع کرنے کے لیے جس طرح بن پڑتاہے مرمار کر کرتا ہے۔ ایسی نیت سے ۔َصرف کرنا محض اسراف وتفاخر ہے جس کا گناہ ہونا بارہا مذکور ہوچکا ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ اس کے لیے قرض سودی لینا پڑتاہے، یہ جدا گناہ ہے۔
۶۔ جولوگ مستحقِ اعانت ہیں ان کو کوئی بھی نہیں دیتا یا ادنیٰ درجہ کا پکاکر ان کودیا جاتاہے، اکثر اہلِ ثروت وبرادری کے