اب خیال فرمائیے کہ جو شخص بزرگوں سے اولاد، رزق وغیرہ کی توقع رکھتا ہے، اس سے پوچھنا چاہیے کہ اوّل تو ان اولیا کو تمہاری حاجت کی اطلاع کیسے ہوئی اور اگر کہیں کہ ان کو تو سب کچھ خود معلوم ہے تو یہ شرکِ صریح ہے اور اگرکہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اطلاع کردیتا ہے سو یہ محال تو نہیں، مگر ضرور بھی نہیں۔ بلا حجتِ شرعیہ کسی امرِممکن کے وقوع کا عقیدہ کرنا محض معصیت وکذبِ قلب ہے۔ قال اللّٰہ تعالٰی: {وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌط}3 الآیۃ۔پھر یہ کہ ان کے پاس رزق واولاد کہاں جمع رکھا ہے، جو نعمتیں ان کے پاس ہیں وہ اور چیزیں ہیں۔ بچے اور روپیہ کا ڈھیر ان کے پاس نہیں لگا۔ پھر یہ کہ قدرت کو اگر ذاتی سمجھا جاوے تب تو شرک ہے اور اگر یہ کہا جاوے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ تصرف دیا ہے تو اس کے لیے دلیلِ شرعی کی حاجت ہے اور بدون اس کے یہ اعتقاد بھی باطل وافترائے محض ہے، بلکہ قرآن وحدیث میں تو {لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا}1 صاف صاف موجود ہے جس سے دوسروں کو ایسی قدرت کی نفی ہورہی ہے۔ پھر یہ کس طرح معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جو اَحکم الحاکمین ہے وہ ہرگز اس تصرف سے نہ روکیں گے، جس طرح چاہتے ہیں وہی ہوجاوے گا۔ اگر ایسا کوئی سمجھے تو اس نے تمام قرآن کی تکذیب کی، پھر وہ ذرائع دریافت کیے جاویں کہ اولاد اس کو کس طرح دی، روپیہ کس طرح ان کے پاس بھیجا اور اگر ان تمام اشکالات کے جواب میں کوئی یوں کہے کہ وہ لوگ دُعا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ قبول فرماکر ویسا ہی کردیتے ہیں۔ اس کا جواب یہی ہے کہ دُعا کے لیے اوّل ان کو اطلاع کی ضرورت ہے، اور اس کی دلیل کوئی نہیں، پھر بعد اطلاع کے اس کی دلیل کیا ہے کہ وہ دُعا کر ہی دیتے ہیں۔ پھر دُعا کے بعد اس کی کیا دلیل ہے کہ وہ ضرور ہی قبول ہوجاتی ہے۔ غرض تو۔ّسل کے یہ معنی نہیں ہیں۔
البتہ تو۔ّسل جو احادیث سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کرے کہ ’’یا الٰہی! فلاں مقبول بندہ کی برکت سے میری فلاں حاجت پوری فرمادیجیے‘‘۔ جس طرح حضرت عمر ؓ نے حضرت عباس ؓ کے تو۔ّسل سے بارش کی دعا مانگی ، ایسا تو۔ّسل بلا شک جائز ہے اور جس طرح ۔ُجہلا کا عقیدہ ہے وہ محض شرک ہے۔
غرض یاد رکھو کہ جن کمالات کا اختصاص حضرت حق تعالیٰ کے ساتھ عقلاً ونقلاً ثابت ہے ان کمالات کا کسی دوسرے میں اعتقاد کرنا شرکِ اعتقادی ہے۔ اور جن معاملات اور افعال کا خاص ہونا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ثابت ہے وہ برتاؤ کسی سے کرنا شرک فی العمل ہے۔ اس قاعدہ کے لحاظ کرنے سے ان شاء اللہ کسی بلا میں مبتلا نہ ہوگا۔
۲۔ وہی تخصیصات وتعیّنات کا ضروری سمجھنا جس کی کراہت کا چند بار ذکر ہوچکا ہے، یہاں بھی موجود ہے۔
۳۔ اکثر عوام کی عادت ہے کہ بہت سے طعام میں سے تھوڑا سا کھانا کسی طباق یا خوان میں رکھ کر اس کو رُوبرو رکھ کر فاتحہ وغیرہ پڑھتے ہیں۔ اس میں علاوہ مفاسدِ مذکورہ کے یہ امر قابلِ استفسار ہے کہ جتنا کھانا تم نے پکایا ہے آیا اس کا ثواب بخشنا