ان سے عذاب ہلکا ہوجاوے ‘‘۔
جواب اس کا یہ ہے کہ اوّل تو بعض لوگوں نے اس کو حضور ﷺ کی خصوصیات سے کہا ہے اور اگر عام ہی کہا جاوے تب بھی قیاس مع الفارق ہے دو وجہ سے: اوّل تو کجا شاخ اور کجا پھولوں کے ہار اور چادریں، وہاں مقصود محض ایصالِ اثرِ ذکر ہے اور یہاں تکلف وآرایش اور تکلف قبور کے ساتھ خود ممنوع ہے جیساکہ اُوپر معلوم ہوچکا ہے۔ دوسرے یہ کہ حضورﷺ نے اس عمل کو تخفیفِ عذاب کے لیے کیا تھا، اگریہ لوگ بھی تخفیفِ عذاب کے لیے کرتے ہیں تو جن حضرات کو کامل اورمقبول مانتے ہیں اور ان میں عذاب کا احتمال بھی ان کو ہرگز نہیں ہوسکتا ان کی قبروں کے ساتھ یہ عمل نہ کرتے، بلکہ فاسقوں اور فاجروں کی قبور کے ساتھ کرتے۔ حالاںکہ معاملہ بالعکس ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مقصود تخفیفِ عذاب نہیں، بلکہ وہی تقر۔ّ ب اور خوش نودی اولیاء اللہ کی، جس کی دلیل ان کے پاس نہیں، اور نہ وہ ان اُمور سے خوش ہوتے ہیں اور خوش تو جب ہوتے جب ان کو کوئی نفع پہنچتا، ان تکلّفات سے ان کو کیا فائدہ؟
اور فاتحہ مروّجہ میں یہ اُمور پیدا ہوگئے ہیں:
۱۔اکثر عوام حضرات اولیاء اللہ کو حاجت روا اور مشکل ۔ُکشا سمجھ کر اس نیت سے فاتحہ ونیاز دلاتے ہیں کہ ان سے ہمارے کاروبار کو ترقی ہوگی، مال واولاد ہوگی، ہمارا رزق بڑھے گا اور اولادکی عمر بڑھے گی، ہر مسلمان جانتا ہے کہ اس طرح کا عقیدہ صرف شرک ہے۔ تمام قرآنِ مجید اس عقیدہ کے ابطال سے بھرا پڑا ہے۔ بعض لوگ زبردستی تاویل کرتے ہیں کہ ہم قادرِ مطلق عالمُ الغیب حق تعالیٰ ہی کو سمجھتے ہیں، مگر آخر بزرگوں کا توسّل تو جائز اور ثابت ہے۔
جواب یہ ہے کہ تو۔ّسل کا یہ معنی نہیں کہ ان وسائل کو کارخانۂ تکوین میں کچھ دخیل سمجھا جاوے، خواہ تو ان کو فاعل سمجھیں، اس طرح کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے کارخانے سپرد کر رکھے ہیں اور خواہ یوں سمجھیں کہ فاعل تو اللہ تعالیٰ ہے مگر ان حضرات کے عرض و معروض کرنے سے ضرور ہی اللہ میاںکوکرنا پڑتا ہے، ایسا تو۔ّسل تو شرکِ محض ہے۔ مشرکینِ عرب کے عقائد اسی قسم کے تھے، وہ بھی اصنام وارواح کو فاعل بالاصالت نہ جانتے تھے۔ اسی طرح کارکن سمجھتے تھے، جیسا کہ آیت: {وَلَئِنْ سَاَلْتَـہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَـقُوْلُنَّ اللّٰہُط}1 {مَـا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰیط}2 اس کی شاہد ہے۔
ایک موٹی بات سمجھنے کے قابل ہے کہ کسی شخص سے کسی چیز کی توقع رکھنے کے لیے کئی امر کا جمع ہوناضروری ہے: اوّل اس شخص کواس کی حاجت کی اطلاع ہو، دوسرے اس کے پاس وہ چیز بھی موجود ہو، تیسرے اس کو دینے کی قدرت بھی ہو، چوتھے اس سے بڑا کوئی روکنے والانہ ہو، پانچویں اس کے پاس ذرائع اس چیز کو اس شخص تک پہنچانے کے بھی ہوں۔