تمہارے ہاتھ نہ آئے اپنے جی کو اس کے پیچھے مت ڈالو) اور اصرار و التزام وغیرہ کا غیرمشروع ہونا فصلِ اوّل کے قاعدئہ اوّل میں بیان ہوچکا ہے جس کی وجہ سے وہ مجلس بھی غیرمشروع ہوجاوے گی، جیسا قاعدئہ دوم میں بیان ہوا۔ اور اس عذرکاجواب اسی فصل کے آغاز میں ہوچکا ہے کہ کوئی شخص کہنے لگے کہ ’’ہماری نیت تو اچھی ہے ہم کو دوسروں کے عقیدئہ فاسد سے کیا بحث‘‘۔ البتہ افادہ واستفادۂ اہلِ قبور بطریقِ مشروعِ شریعت مستحسن ہے۔ اس کا طریق یہ ہے کہ گاہ گاہ ان مزارات پر حاضرہوا کرے اور جوکچھ توفیق ہو پڑھ کر بخش دے اور اپنی موت کو یاد کرے اور اگر صاحبِ نسبت ہے اور دل چاہے تو حسبِ طریقۂ معمولۂ اہلِ تصوف ان سے استفادۂ برکات کا
کرے۔ اور اگر عباداتِ مالیہ کا ان کو ثواب بخشنا ہو تو اپنے گھر پر حسبِ توفیق پکاکر کھلاکریا نقد وغلہ وغیرہ مساکین کو خفیہ دے کر ان کی رُوح کو بخش دے۔ نہ تاریخ معیّن کرنے کی حاجت ہے اور نہ شہرت دینے کی۔
اسی طرح زمانۂ عرس بلکہ غیر عرس میں اولیاء اللہ کے مزارات پر چادر ڈالتے ہیں جو مکروہ اور اسراف ہے اور عوام کو جو اس میں اعتقاد ہے وہ بالکل شرک ہے۔ پھر غضب یہ ہے کہ اس کی نذر ومنّت مانی جاتی ہے۔ بعض لوگ دور دراز سے سفرکرکے اپنے بچوں کا چلّہ چھٹی وہاں کرتے ہیں اور یہ نذر وہاں پوری کرتے ہیں۔ بعضے آسیب اُتروانے کے لیے آتے ہیں، اور عقائدِ فاسدہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بعضے طواف و سجدہ کرتے ہیں۔ بعضے وہاں چراغ روشن کرتے ہیں، قبریںپختہ بناتے ہیں۔ قرآن وحدیث سے صاف صاف ان سب اُمور سے توبہ کاحکم ہے۔
چناںچہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھ کو یہ حکم نہیں فرمایا کہ قبروں کو کپڑے پہنائے جاویں‘‘۔ اس سے قبروں پر غلاف ڈالنے کا ناپسند ہونا صاف ظاہر ہے۔
علامہ شامی ؒ نے نقل کیا ہے: یُکْرَہٗ السُتُوْرُ عَلَی الْقُبُوْرِ۔ بعض لوگ دھوکا دینے کے لیے حجت ملاتے ہیں کہ دیکھو عورت کے جنازہ پر گہوارہ بناکر چادر ڈالتے ہیں۔ گہوارہ بھی قبر کے مشابہ ہے، جب یہ جائز ہے وہ بھی جائز ہے۔ اس تقریرکالغو ہونا ظاہر ہے۔ اوّل تو یہ قیاس ہے کہ جو نص کے مقابلہ میں خود باطل ہے۔ دوسرے قیاس بھی مع الفارق، گہوارہ پر تو پردے کی غرض سے چادر ڈالتے ہیں۔ قبرجب بند ہوگئی اب پردہ کی کون سی ضرورت ہے۔ یہاںتو محض زیب و زینت و تکلف اور تقرب و رضامندی صاحبِ مزار مقصود ہے بس۔ اور اسراف رہا جدا۔ اور خود یہ اُمور جدا جدا ممنوع ہیں اور سب کا جمع ہونا اور بھی شدید ہے۔ جب اس کا ممنوع ہوناثابت ہوگیا اور معصیت کی نذر جائز نہیں۔ بلاشک ایسی نذر باطل ہوگی جس کا ایفا بالکل ناجائز ہے اور وہاں ایسے فضول کاموں کے لیے جانا خود سفر ِمعصیت ہے، بالخصوص عورتوں کا لے جانا جس میں علاوہ مفاسدِ مذکورہ کے انواع انواع کی بے پردگیاں ہوتی ہیں اور فسادِ عقیدہ رہا جدا، ایسے ہی عورتوں کی نسبت ارشاد