تھے اس وقت انھوں نے اثبات کیا، اب مفاسد پیدا ہوگئے ہیں، وہ حضرات بھی اگر اس زمانہ میں ہوتے اور ان مفاسد کوملاحظہ فرماتے تو خود منع فرماتے، اس لیے اب نفی کی جاتی ہے جیسا قاعدئہ چہارم میںلکھا گیاہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ۔ُعلمائے حرمین اس کے جواز پر اتفاق رکھتے ہیں۔ جواب یہ ہے کہ اوّل تو اتفاق غیر مسلّم، پھر یہ کہ ان کے فتووں میں قیودِ مباحہ کو فی نفسہا جائز لکھا ہے، جس محفل کو جن عقائد و مفاسد کی وجہ سے ہم روک رہے ہیں ان مفاسد کا اظہار سوال میں کرنے کے بعد فتویٰ منگا دو، اس وقت تمہارا یہ شبہ معقول ہوسکتاہے۔ جب فتویٰ آجاوے گا اس وقت جواب ہمارے ذمہ ہوگا۔
بعض کہتے ہیں کہ کثرت سے ۔ُعلما جواز کی طرف ہیں۔ جواب یہ ہے کہ اوّل تو کسی نے دنیا بھر کے ۔ُعلما شماری نہیں کی، دوسرے یہ کہ جس خرابی کی وجہ سے ممانعت کی جاتی ہے اس خرابی کو کون سے ۔ُعلمائے کثیر، بلکہ قلیل نے جائز کیاہے۔ فتویٰ تو استفتا کے تابع ہے۔ مستفتی اپنا عیب کب کھولتاہے، بلکہ ہر طرح اپنی خوش اعتقادی و خلوص کو جتلاکر پوچھتا ہے۔ اس کا جواب بجز جواز کے کیا ہوگا سو یہ فتویٰ حرمین میں یا دیگر علمائے کثیر کے تحقیق مذکورہ بالا کو مضر نہیں ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس بہانہ سے غریب ۔ُغربا کو خیر خیرات پہنچ جاتی ہے یا اس سے اسلام کی شوکت بڑھتی ہے، ناواقف لوگوں کے کان میں کچھ مسائل پڑجاتے ہیں۔ سو اوّل تو خود یہ امر مسلّم نہیں، اکثر جگہ امیروں کو حصہ بٹتاہوا اور غریبوںکو دھکے ملتے ہوئے دیکھا جاتاہے اور ایسے سامانوں سے جس کی خبر بعض اوقات محلہ میں بھی نہیں ہوتی کیا احتشامِ اسلام کا مقصود ہے،اور احکام کا ذکربھی نہیں آتا۔ اور اگر تسلیم بھی کرلیا جائے تو خیر خیرات اور احتشامِ اسلام اور تبلیغِ احکام کے جب اور طریقے بھی مشروع ہیں تو غیرمشروع طریقے سے اس کے حاصل کرنے کی اور ان کے حاصل کرنے کے لیے ان نامشروع طریقوں کے اختیار کرنے کی شر۔ًعا کب اجازت ہوسکتی ہے، جیساکہ قاعدئہ پنجم میںمذکور ہوا۔
اور بھی شبہات اس کے قریب قریب ہیں، جن کا جواب بعد ضبط کرلینے اُصولِ مذکورہ کے ہر عاقل سمجھ سکتا ہے۔ یہ کلام تھا اس مسئلۂ مولد شریف میں جو بہت سلاست اور اختصاراور جامعیت کے ساتھ لکھنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی۔ اب اُمید ہے کہ اہلِ انصاف کو اس مسئلہ میں شبہ نہ رہے گا اور اِفراط اور تفریط سے سب باز آئیں گے، اور ۔ُعلمائے مصلحینِ اُمت سے عداوت وبدگمانی اور ان کی شان میں اہانت وبدزبانی گوارا نہ رکھیں گے، اور شب وروز محبت واتباعِ سنتِ نبویہ ﷺ میں کوشش کریں گے۔
اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنَا حُبَّکَ وَحُبَّ نَبِیِّکَ وَاتِّبَاعَ سَنَّتِہٖ، وَتَوَفَّنَا عَلٰی مِلَّتِہٖ، وَاحْشُرْنَا فِيْ زُمْرَتِہٖ ﷺ ۔