منگنی میں زبانی وعدہ کافی ہے، نہ حجام کی ضرورت، نہ جوڑا اور نشانی اور شیرینی کی حاجت، اور جب دونوں نکاح کے قابل ہوجاویں زبانی یا بذریعۂ خط وکتابت کوئی وقت ٹھہرا کر دُولہا کو بلا لیں، ایک اس کا سرپرست اور ایک خدمت گزار اس کے ہمراہ کافی ہے۔ نہ ۔َبری کی ضرورت اور نہ برات کی حاجت، نکاح کرکے فوراً یا ایک آدھ روز مہمان رکھ کر اس کو رخصت کردیں اور بقدر اپنی گنجایش کے جو ضروری اور کار آمد چیزیں جہیز میں دینا منظور ہوں، بلا اعلان اس کے گھر بھیج دیں یااپنے گھر اس کے سپرد کردیں۔ نہ سسرال کے جوڑوں کی ضرورت، نہ چوتھی بہوڑوں کی حاجت۔ اور جب چاہیں دلہن والے بلالیں اور جب موقع ہو دولہا والے بلالیں۔ اپنے اپنے کمینوں کو فریقین بقدرِ گنجایش دے دیں۔ منہ پر ہاتھ رکھنا بھی کچھ ضروری نہیں، بکھیر بھی فضول ہے۔ اگر توفیق ہو شکریہ میں حاجت مندوں کو دو۔ کسی کام کے لیے قرض مت کرو، البتہ ولیمہ مسنون ہے۔ وہ بھی خلوصِ نیت واختصار کے ساتھ، نہ کہ فخر واشتہار کے ساتھ، ورنہ ایسا ولیمہ بھی جائز نہیں۔ حدیث میں ایسے ولیمہ کو ’’شرا لطعام‘‘ فرمایا گیا ہے۔1 نہ ایسا ولیمہ جائز نہ اس کا قبول کرنا جائز۔ اس سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ اکثر کھانے جو برادری کو کھلائے جاتے ہیں ان کا کھلانا کچھ جائز نہیں۔ دین دار کو چاہیے کہ نہ خود ان رسموں کو کرے اور جس تقریب میں یہ رسمیں ہوں ہرگز وہاں شریک نہ ہو، صاف انکار کردے۔ برادری کنبہ کی رضامندی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے رُوبرو کچھ کام نہ آئے گی۔ وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ۔ بس نکاح ہوگیا۔
تتمہ: ان ہی رسومِ مذکورہ میں سے مغالات فی المہریعنی مہر کے زیادہ ٹھہرانے کی رسم ہے، جو خلافِ سنت ہے۔ حدیث میں ہے فرمایا حضرت عمر ؓ نے کہ ’’خبردار! مہر بڑھاکر مت ٹھہراؤ، اس لیے اگر یہ عزت کی بات ہوتی دنیا میں، اور تقویٰ کی بات ہوتی اللہ کے نزدیک، تو تمہارے پیغمبر ﷺ اس کے زیادہ مستحق تھے۔ مجھ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی بی بی سے نکاح کیا ہو یا کسی صاحب زادی کا نکاح کیا ہو بارہ اوقیہ سے زیادہ‘‘۔ پھر روایت کیا اس کو ترمذی وغیرہ نے۔ بارہ اوقیہ قریب ڈیڑھ سو روپے کے ہوتے ہیں۔
بعض کہتے ہیں کہ زیادہ مہر اس لیے مقرر کرتے ہیں، تاکہ شوہر چھوڑ نہ سکے۔ یہ عذر بالکل لغو ہے۔ اوّل تو جن کو چھوڑنا ہوتا ہے چھوڑہی دیتے ہیں، پھر جو کچھ بھی ہو۔ اور جو مطالبۂ مہر کے خوف سے نہیں چھوڑتے، وہ چھوڑنے سے بدتر کردیتے ہیں، یعنی تطلیق کی جگہ تعلیق عمل میں لاتے ہیں کہ نکاح سے تو نہیں نکالتے، مگر حقوق بھی ادا نہیں کرتے۔ ان کا کوئی کیا کرلیتا ہے؟ یہ سب عذر فضول ہیں۔ اصل یہ ہے کہ افتخار کے لیے ایساکرتے ہیں کہ خوب شان ظاہر ہو، سو فخر کے لیے کوئی کام کرنا گو اصل میں مباح ہو حرام ہوتاہے، چہ جائے کہ فی نفسہٖ بھی خلافِ سنت اور مکروہ ہو، وہ تو اور بھی ممنوع ہوجائے گا۔ مسنون تو یہی ہے کہ ڈیڑھ سو روپیہ کے قریب ٹھہرا لیں اور خیر اگر ایسا ہی زیادہ باندھنے کا شوق ہے تو ہر شخص کی وسعت