پس تو مؤمن ہے‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ گناہ کو مستحسن سمجھنا اور اس پر اصرار کرنا ایمان کا ویران کرنے والا ہے۔ اور حدیث میں بالخصوص ان رسومِ جہالت کی نسبت بہت سخت وعید آئی ہے۔
فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ’’سب سے زیادہ بغض اللہ تعالیٰ کو تین شخصوں کے ساتھ ہے، (ان میں سے ایک یہ بھی فرمایا کہ) جو شخص اسلام میں آکر جاہلیت کی رسمیں برتنا چاہے‘‘۔ اور بہت احادیث مضامینِ مذکورہ کی موجود ہیں، چوںکہ ان خرابیوں کی برائی بدیہی ہے، اس لیے زیادہ دلائل قائم کرنے کی حاجت نہیں۔ ’’اگر درخانہ کس است یک حرف بس است‘‘۔ پس مسلمانوںکو فرض وواجب ومقتضائے ایمان وعقل یہ ہے کہ ان خرابیوں کی برائی جب عقلاً و نقلاً ثابت ہوگئی، ہمت کرکے سب کوخیر باد کہے اور نام و بدنامی پر نظر نہ کرے۔ بلکہ تجربہ شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں زیادہ عزت ونیک نامی ہوتی ہے اور ان رسوم کی موقوفی کے دو طریق ہیں: ایک تویہ کہ سب برادری متفق ہوکر یہ سب بکھیڑے موقوف کردیں۔ دوسرا طریق یہ ہے کہ اگر کوئی اس کا ساتھ نہ دے تو خود ابتدا کرے، دیکھا دیکھی اور لوگ بھی ایسا ہی کریں گے۔ اس طرح چند روز میں عام اثر پھیلے گا اور ابتدا کرنے کا ثواب اس شخص کو ملے گا اور مرنے کے بعد بھی وہ ثواب لکھا جایاکرے گا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ صاحب جس کو گنجایش ہو وہ کرے جس کو نہ ہو وہ نہ کرے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو گنجایش والوں کو بھی گناہ کرنا جائز نہیں۔ جب ان رسوم کا معصیت ہونا ثابت ہوگیا، پھر گنجایش سے اجازت کب ہوسکتی ہے؟ دوسرے یہ کہ جب گنجایش والے کریں گے تو ان کی برادری کے غریب آدمی بھی اپنی حفظِ آبرو کے لیے ضرور کریں گے۔ اس لیے ضروری امر اور مقتضائے انتظام یہی ہے کہ سب ہی ترک کردیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگریہ رسوم موقوف ہوجاویں تو پھر میل ملاپ کی کوئی صورت نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو میل ملاپ کی مصلحت سے معاصی کا ارتکاب کسی طرح جائز نہیں ہوسکتا، پھر یہ کہ میل ملاپ اس پر موقوف بھی نہیں۔ بلا پابندی ٔرسوم اگر ایک دوسرے کے گھر جائیں یا اس کو بلائیں، اس کو کھلائیں پلائیں، کچھ امداد وسلوک کرے، جیسے یار دوستوں میں راہ ورسم جاری ہیں تو کیا یہ ممکن نہیں، بلکہ اب تو ان رسموں کی بدولت بجائے محبت والفت کے جوکہ میل ملاپ سے اصلی مقصود ہے اکثر رنج وتکرار اور شکایت اور پرانے کینوں کا تازہ کرنا اور صاحبِ تقریب کی عیب جوئی اور تذلیل کے درپے ہونا اور اس طرح کی دوسری خرابیاں دیکھی جاتی ہیں اور چوںکہ ایسا لینا دینا، کھانا اور کھلانا عرفاً لازم ہوگیا ہے، اس لیے کچھ فرحت و مسرت بھی نہیں ہوتی، نہ دینے والے کو کہ وہ ایک بے گار سی اُتار تاہے نہ لینے والے کو کہ وہ اپنا حق ضروری یا معاوضہ سمجھتا ہے، پھر لطف کہاں؟ اس لیے ان تمام خرافات کا حذف کرنا واجب ہے۔