کے نام سے اور شیرینی دی جاتی ہے۔ یہ ایسا فرض ضروری ہے کہ گو سودی روپیہ قرض لینا پڑے، مگر یہ قضا نہ ہو، جو صریح تعدیٔ حدود ہے۔
۹۲۔ بعد نکاح کے سال دوسال تک بہو کی روانگی کے وقت کچھ مٹھائی، کچھ نقد اور جوڑے وغیرہ طرفین سے بہو کے ہمراہ کردیے جاتے ہیں۔ اور عزیزوں میں بھی خوب دعوتیں ہوتی ہیں، مگر وہی جرمانہ کی دعوت کہ بدنامی سے بچنے کو یا ناموری و سرخ روئی حاصل کرنے کو سارا بکھیڑا ہوتاہے۔ پھر اس میں معاوضہ ومساوات کا پورا لحاظ ہوتا ہے، بلکہ بعض اوقات خود شکایت و تقاضا کرکے دعوت کھاتے ہیں۔غرض تھوڑے دنوں تک یہ آؤ بھگت سچی یا جھوٹی ہوتی رہتی ہے۔ پھر اس کے بعد ’’کس نمی پرسد کہ بھیا کون ہو؟‘‘ سب خوشیاں منانے والے اور جھوٹی خاطر داری کرنے والے علیحدہ ہوئے، اب جو مصیبت پڑے بھگتو۔ کاش! جس قدر روپیہ بے ہودہ اُڑایا ہے ان دونوں کے لیے اس سے کوئی جائیداد خرید کر دی جاتی یا تجارت کا سلسلہ شروع کردیا جاتا، کس قدر راحت ہوتی۔ ساری خرابی اس التزام مالا یلزم کی ہے۔
۹۳۔ شیرینی طرفین کی برادری میں تقسیم ہوجاتی ہے جس کی بنا وہی رِیاہے اور اگر شیرینی سب کو نہ پہنچے تو اپنے گھر سے منگاکر اس میں ملاؤ، یہ بھی جرمانہ ہے۔
۹۴۔ بعض جگہ کنگنا باندھنے کا بھی دستور ہے جو بوجہ رسمِ کفار ہونے کے منع ہے۔
۹۵۔ بعض جگہ آرسی مصحف کی رسم ہے، اس میں بھی طرح طرح کی رسوائیاں اور فضیحتیاں ہیں، جو بالکل عقل اور شرع کے خلاف ہیں۔
۹۶۔ بعض جگہ آرایش وآتش بازی کا سامان ہوتاہے، جو سراسر اسراف و افتخارِ حرام ہے۔
۹۷۔ بعض باجے ہندوستانی اور انگریزی ہوتے ہیں۔ معازف1 و مزامیر کاحرام ہونا حدیث میں موجود ہے۔
۹۸۔ بعض جگہ چوتھی کھیلنے کا رواج ہے، جو سراسر بے غیرتی اور بے حیائی اور تشبّہ بالکفار ہے، جیسا اُوپر مفصل مذکور ہوا۔
۹۹۔ بعض جگہ دولہا دُلہن کو لے کر ڈولا سے اُتارتا ہے۔ کس قدر بے غیرتی کی بات ہے۔
۱۰۰۔ بعض تاریخوں اور مہینوں اور سالوں کو مثلاً: اٹھارہ سال کو منحوس کہتے ہیں اور اس میں شادی نہیں کرتے۔ یہ اعتقاد بھی عقل اور شرع کے خلاف ہے۔
یہ ایک سو واقعات ہیں جن میں سے کسی میںایک گناہ، کسی میں دو گناہ، کسی میں چار پانچ اور بعض میں تیس تک مجتمع ہیں۔ اگر اوسط فی واقعہ تین گناہ رکھے جائیں تو واقعاتِ مذکورہ تین سو گناہوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ جس عقد میں تین سو حکمِ شرعی کی مخالفت ہوئی ہو، اس میں خیر وبرکت کا کیا ذکر!