۷۶۔ بہو کے بھائی وغیرہ گھرمیں بلائے جاتے ہیں اور بہو کے ساتھ علیحدہ مکان میں بیٹھتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ لوگ شرعاً نامحرم بھی ہوتے ہیں، مگر اس کی کچھ تمیز نہیں ہوتی کہ نا محرم کے پاس تنہا مکان میں بیٹھنا خصوصاً زیب وزینت کے ساتھ کس قدر گناہ اور بے غیرتی کی بات ہے۔ وہ اکثر بہو کو کچھ نقد دیتے ہیں اور کچھ مٹھائی کھلاتے ہیں اور چوتھی کاجوڑا مع تیل وعطر وخرچِ کمینان گھر میں بھیج دیتے ہیں، یہ سب التزام ِمالایلزم میں داخل ہے۔
۷۷۔ جب نائی ہاتھ دھلانے آتاہے تو وہ اپنا نیگ جوزیادہ سے زیادہ ایک روپیہ چار آنے اورکم سے کم چار آنے ہے لے کر ہاتھ دھلواتاہے، اس فرضیت کا بھی کچھ ٹھکانا ہے۔ جتنے حقوق اللہ و حقوق العباد ہیں ان میں توقف ہوجائے، مگر اس تصنیفی حق میں جو واقع میں ناحق ہے کیا ممکن کہ فرق آجائے، پہلے اس کا قرض ادا کردو، اس کے بعد کھانا نصیب ہو۔
استغفراللہ! مہمانوں سے دام لے کر کھانا کھلانا یہ ان ہی بندگانِ رسم کاکام ہے، یہ التزام و تعدیٔ حدودہے۔
۷۸۔بروقت کھانا کھانے چوتھی والوں کی ڈومنیاں دروازہ میں بیٹھ کر اور گالیاں گاکر اپنا نیگ لیتی ہیں۔ خدا تم کو سمجھے،ایسے ہی لینے والے اور ایسے ہی دینے والے، اہلِ حاجت کو خوشامد اور دعاؤں پر پھوٹی کوڑی نہ دیں اور ان بدذاتوں کو گالیاں کھاکر روپیہ بخشیں۔ واہ رے رواج! تو بھی کیسا زبردست ہے، خدا تجھے ہمارے ملک سے غارت کرے۔
۷۹۔ دوسرے روز چوتھی کا جوڑا پہناکر مع اس مٹھائی کے جو بہو کے گھر سے آئی تھی رخصت کرتے ہیں۔ ’’ماشاء اللہ عطائے تو،بہ لقائے تو‘‘ کے یہی معنی ہے۔ بھلا صاحب! اس مٹھائی کے بھیجنے سے اور واپس لے جانے سے کیا حاصل ہوا۔ گویا اس مبارک گھر سے مٹھائی میں برکت آجانے کے لیے بھیجی ہوگی۔ خیال تو کیجیے۔ رسم کی پابندی میں عقل بے چاری کی بھی تو حکومت گئی گزری، اور التزامِ مالا یلزم کا شرعی گناہ والزام تو قائم ہی ہے۔
۸۰۔ اور بہو کے ساتھ نوشا بھی آجاتاہے اور رخصت کرنے کے وقت وہی چار چیزیں پلّو میں باندھی جاتی ہیں جو رُخصت کے وقت وہاں سے بندھ کر آئی تھیں، یہ بھی خرافات اور شگون ہے۔
۸۱۔ وہاں جاکر جب دُلہن اُتاری جاتی ہے تو اس کا داہنا انگوٹھا وہاں کی نائن دھوکر وہ اٹھنی یا روپیہ جو بہو کے پلّے میں بندھا ہوتاہے لیتی ہے، وہی شگون یہاں بھی ہے۔
۸۲۔ دولہا جب گھر میں جاتاہے تو سالیاں اس کا جو تا چھپاکر ’’جوتا چھپائی‘‘ کے نام سے کم از کم ایک روپیہ لیتی ہیں۔ شاباش! ایک تو چوری کریں اور اُلٹا انعام پائیں۔اوّل تو ایسی مہمل ہنسی کہ کسی کی چیز اُٹھائی، چھپادی۔ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔1 پھر یہ کہ ہنسی دل لگی کا خاصہ ہے کہ اس سے ایک بے تکلّفی بڑھتی ہے۔ بھلا اجنبی مرد سے ایسا تعلق و ارتباط پیدا کرنا خود شرع کے خلاف ہے۔ پھر اس انعام کو حقِ لازمی سمجھنا، یہ بھی جبر فی التبرع ہے و تعدیٔ حدود ہے۔