اس کو دفع کرکے خوش ہوئے، اور یہ جھوٹا رونا ناحق کا فریب ہے جوکہ عقلاً ونقلاً گناہ ہے۔
۴۹۔ اور دُلہن کے دوپٹے کے ایک پلّے میں کچھ نقد اور دوسرے میں ہلدی کی گرہ اور تیسرے میں جائفل، چوتھے میں چاول اور گھاس کی پتی باندھتے ہیں۔ یہ ایک شگون اور ٹوٹکا ہے جو علاوہ خلافِ عقل ہونے کے شعبہ شرک ہے۔
۵۰۔اور ڈولے میں مٹھائی کی چنگیر رکھ دیتے ہیں جس کا مصرف آگے آتاہے۔ اس سے اس کا بے ہودہ اورممنوع ہونا معلوم ہوجائے گا۔
۵۱۔ اوّل ڈولا دلہن کی طرف کے کہار اُٹھاتے ہیں اور دولہا والے اس پر بکھیر شروع کرتے ہیں۔ اگر اس میں کوئی اثر شگونی بھی سمجھتے ہیں کہ اس کے سرپر سے آفات اتر گئیں تب تو فسادِ اعتقاد بھی ہے، ورنہ نام ونمود، شہرت کی نیت ہونا ظاہر ہے، غرض ہر حال میں مذموم ہے۔ پھر لینے والے اس بکھیر کے بھنگی ہوتے ہیں جس سے تاویل صدقہ کی بھی نہیں چل سکتی۔ ورنہ غریبوں محتاجوں کو دیتے۔ کیا بھنگی سب سے زیادہ دنیا میں فضول ہیں۔ ان کو بلاؤں کا لینے والا سمجھ لیا ہے، اس لیے ان کو اس کا مصرف قرار دیا۔ پس یہ ایک طرح کا اسراف بھی ہے کہ مستحقین کو چھوڑ کر غیر مستحقین کو دیا۔ پھر اس میں بعض کے چوٹ بھی لگ جاتی ہے۔ کسی کے تو بھیڑ کی وجہ سے اور کسی کو خود روپیہ پیسہ لگ جاتاہے، یہ خرابی مزید برآں ہے۔
۵۲۔ اس بکھیر میں سے ایک مٹھی ان کہاروں کو دی جاتی ہے بابت بکھیر کے۔ اور یہ سب کمینوں کا حق ہوتاہے، وہی جبر فی التبرع کاناجائز ہونا یاد کرلیا جائے۔
۵۳۔ جب بکھیر کرتے ہوئے شہر کے باہر پہنچتے ہیں تو یہ کہار ڈولا کسی باغ میں رکھ کر اپنانیگ سواروپیہ لے کر چلے جاتے ہیں، وہی جبرِ تبرع یہاں بھی ہے۔
۵۴۔ اور دلہن کے عزیز واقارب جو اس وقت تک ساتھ ہوتے ہیں رخصت کرکے چلے جاتے ہیں اور وہاں پر وہ چنگیر مٹھائی کی نکال کر براتیوں میں بھاگ دوڑ چھینا جھپٹی شروع ہوتی ہے، اس میں علاوہ التزام مالا یلزم کے اکثر یہ بے احتیاطی ہوتی ہے کہ اجنبی مرد ڈولے میں اندھا دھند ہاتھ ڈال کر وہ چنگیر لے لیتے ہیں۔ اس کی پرواہ نہیں کہ پردہ کھل جائے گا، نائن یا دلہن کو ہاتھ لگ جائے ۔ اور بعض غیرت مند اعزہ دلہن یا دولہا کے اس پر جوش کھاکر سخت وسست کہتے ہیں، جس میں بڑی دور نوبت پہنچتی ہے، مگر اس منحوس رسم کو کوئی نہیں چھوڑتا۔ تمام تھکا فضیحتی منظور، مگراس کا قضاکرنا نا منظور۔ إنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
۵۵۔ راستے میں جو اوّل ندی ملتی ہے تو کہار لوگ اس ندی پر پہنچ کرڈولا رکھ دیتے ہیں کہ ہمارا حق دو تب ہم پار جاویں اور یہ حق کم از کم ایک روپیہ ہوتاہے جس کو ’’دریا اتروائی‘‘ کہتے ہیں، یہ وہی جبر فی التبرعات ہے۔