رحم فرمائے۔
۲۶۔ سب سے پہلے سقا پانی لے کر آتاہے اس کو سوا روپیہ بیر گھڑی کے نام سے دیا جاتاہے، گو دل نہ چاہے، مگر زکوٰۃ سے بڑھ کر فرض ہے کہ ضرور دو۔ غضب ہے کہ اوّل تو تبّرعات میں جبر جو محض حرام ہے اور جبرکے کیا یہی معنی ہیں کہ لاٹھی ڈنڈا مار کر کسی سے کچھ لے لیا جاوے، بلکہ یہ بھی جبر ہے کہ اگر نہ دیں گے تو بدنام ہوں گے۔ پھر لینے والے خود مانگ کر جھگڑ جھگڑ کرلیتے ہیں، اور وہ بے چارہ اپنے ننگ وناموس کے لیے دیتاہے، یہ سب جبر حرام ہے۔ پھر یہ بیرگھڑی تو ہندوانہ لعنت ہے۔ معلوم ہوتاہے کہ کفار سے یہ رسم سیکھی ہے، یہ رسم دوسری ظلمت ہوئی۔
۲۷۔ اس کے بعد ڈوم شربت گھولنے کے واسطے آتاہے جس کو سوا روپیہ دیا جاتاہے اور شکر شربت کی دُلہن والوں کے یہاں سے آتی ہے۔ یہاں بھی وہی جبر ِتبرعات موجود ہے۔ پر یہ ڈوم صاحب کس مصرف کے ہیں۔ بے شک شربت گھولنے کے لیے بہت ہی موزوں ہیں۔ کیوںکہ آلاتِ نشاط بجاتے بجاتے ہاتھ میں مادۂ سرور پیدا ہوگیاہوگا، تو شربت مل جانے سے پینے والوں کو سرور زیادہ ہوگا۔
۲۸۔ قاضی صاحب کو بلواکر نکاح پڑھواتے ہیں۔ بس یہ ایک امر ہے جو تمام غیر مشروعات میں ایک مشروع ہے۔ مگراس میں بھی دیکھا جاتاہے کہ اکثر جگہ حضرات قاضی صاحبان مسائلِ نکاح اور متعلقات اس کے سے محض ناواقف ہوتے ہیں کہ بعض مواقع پر نکاح بھی درست نہیں ہوتا۔ تمام عمر بدکاری ہوا کرتی ہے۔ اور بعض ایسے طمّاع کہ روپیہ سوا روپیہ کے لالچ میں آکر جس طرح فرمایش کی جاوے کر گزرتے ہیں، خواہ نکاح ہویا نہ ہو۔ اس میں بہت اہتمام چاہیے کہ نکاح پڑھنے والا خود عالم ہو یا کسی عالم سے خوب تحقیق کرکے نکاح پڑھے۔
۲۹۔ اور ان کو کچھ دے کر رخصت کرتے ہیں۔ اکثر جگہ دیکھا جاتاہے کہ یہ لوگ اس کو اپنا حق واجبُ الادا سمجھتے ہیں اور حتیٰ کہ اگر کوئی نہ دے یا معیّن مقدار سے کم دے تو اس سے تکرار کرتے ہیں، تقاضا کرتے ہیں، بڑی تہذیب کا مظاہرہ فرمایا تو یہ زبان سے نہ بولیں گے، مگر دل میں ضرور ناخوش ہوں گے ۔ تو ایسے لینے کی نسبت ’’رفاہ المسلمین شرح مسائل أربعین‘‘ میں ’’خزانۃ الروایات‘‘ سے حرام ہونا نقل کیا ہے۔ اور اس سے بڑھ کر ایک رواج یہ ہورہا ہے کہ اکثر جگہ قاضی لوگ اپنا نائب بھیج دیتے ہیں، اور ان کو جو کچھ ملتا ہے اس میں زیادہ حصہ قاضی کا اور تھوڑا سا اس نائب کا ہوتا ہے۔ یہ استحقاق قاضی صاحب کا بلا دلیل ہے اور اس پر کچھ اور مطالبہ کرنا بالکل ناجائز ہے۔ یہ امر قابل یاد رکھنے اور لحاظ کرنے کے ہے کہ البتہ خوشی سے اگر صاحبِ تقریب کچھ دے دے تو لینا جائز ہے۔ اور جس کو دیا ہے اسی کی ملک ہے۔ مثلاً: اگر نائب کوخوشی سے دیا تو تمام تر اس کی ملک ہے۔ قاضی صاحب اس سے اس وجہ سے لیتے ہیں کہ ہم نے تم کو مقرر کیا ہے،