سامنے آکھڑی ہوتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ یہ تو اس کی شرم کا وقت ہے، یہ کسی کو نہ دیکھے گا۔ بھلا ہی غضب کی بات نہیں۔ اوّل تو یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ نہ دیکھے گا۔ مختلف طبائع کے لڑکے ہوتے ہیں جن میں اکثر تو آج کل شریر ہی ہیں۔ پھر اگر اس نے نہ بھی دیکھا تو تم کیوں اس کو دیکھ رہی ہو۔ حدیث شریف میں ہے کہ’’لعنت کرے اللہ تعالیٰ دیکھنے والے پر اور جس کو دیکھے‘‘۔1 غرض اس موقع پر دولہا اور عورتیں سب گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں، پھر سہرا باندھنا، یہ دوسرا امر خلافِ شرع ہوا، کیوں کہ یہ رسم کفار کی ہے۔
حدیث میں ہے کہ ’’جو تشبّہ کرے کسی قوم کے ساتھ وہ ان ہی میں سے ہے‘‘۔2 پھر لڑ جھگڑ کر اپنا حق لینا، اوّل تو ویسے بھی کسی پر جبر کرناحرام ہے، اور بالخصوص ایک معصیت کا ارتکاب کرکے اس پر کچھ لینا بالکل گند درگند ہے۔ اور نوشا کے سر پر سے پیسوں کا اتارنا یہ بھی ایک ٹوٹکا ہے، جس کی نسبت حدیث میں ہے کہ ٹوٹکا شرک ہے۔3 غرض یہ بھی سرتا سر خلافِ شرع امور کا مجموعہ ہے۔
۱۲۔ اب برات روانہ ہوجاتی ہے۔ یہ برات بھی شادی کا رکنِ اعظم سمجھا جاتاہے۔ اور اس کے لیے کبھی دولہا والے کبھی دُلہن والے بڑے بڑے اصرار اور تکرار کرتے ہیں۔ غرض اس سے ناموری اور تفاخر ہے اور عجب نہیں کہ کسی وقت میں جب کہ راستوں میں امن نہ تھا، اکثر راہ زنوں اور قزاقوں سے دوچار ہونا پڑتا تھابہ مصلحتِ حفاظت دولہا و دلہن واسباب زیور وغیرہ کے برات لے جانے کی رسم ایجاد ہوئی اور اسی وجہ سے گھر پیچھے ایک آدمی برات میں ضرور جاتا تھا، مگر اب تو نہ وہ ضرورت باقی رہی اور نہ کوئی مصلحت صرف افتخار و اشتہار رہ گیا، پھر اکثر اس میں ایسا بھی کرتے ہیں کہ بلائے پچاس اور جا پہنچے سو۔ اوّل تو بے بلائے اس طرح کسی کے گھر جانا حرام ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’جو شخص دعوت میں بے بلائے جائے وہ گیا تو چور ہوکر، اور نکلا لٹیرا ہوکر‘‘۔1 یعنی ایسا گناہ ہوتا ہے جیسے چوری اور لوٹ مار کا، پھر دوسرے شخص کی اس میں بے آبروئی بھی ہوجاتی ہے۔ کسی کو رسوا کرنا، یہ دوسرا گناہ ہوا۔ پھر ان امور کی وجہ سے اکثر جانبین میں ایسی ضدا ضدی اور بے لطفی ہوتی ہے کہ عمر بھر اس کا اثر قلوب میں باقی رہتا ہے، چوںکہ نا اتفاقی حرام ہے، اس لیے اس کے اسباب بھی حرام ہوں گے۔ اس لیے یہ فضول رسوم ہرگز ہرگز جائز نہیں۔
راہ میں جو گاڑی بانوں پر جہالت سوار ہوتی ہے اور گاڑیوں کو بے ُسدھ بلا ضرورت بھگانا شروع کرتے ہیں اس میں سینکڑوں خطرناک واردات ہوجاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے مہلکہ خطرہ میں پڑنا بلا ضرورت کسی طرح جائز نہیں اور کوئی شخص گھوڑ دوڑ کا شبہ نہ کرے کہ اگر اس میں قمار نہ ہو تو وہ اس وقت جائز ہے، حالاںکہ اس میں بھی خطرہ ہے۔ جو اب اس شبہ کا یہ ہے کہ اوّل تو گھوڑ دوڑ میں جس قدر سوار ہیں سب ماہر ہیں۔ اس میں یہ احتمال کم ہے اور یہاں بہلیوں کے سوا سب