سب ہی کچھ ہوتاہے باہر نکال دینا کس قدر غیرت و عفّت کے خلاف ہے،یہ چوتھا گناہ ہوا۔ پھر اگر سودی لیا تو سود دینا پڑا، یہ پانچواں گناہ ہے۔
اگر خاوند کی نیت ان بے جا فرمایشوں سے بگڑگئی اور حرام آمدنی پر اس کی نظر پہنچی، کسی کا حق تلف کیا، رشوت لی اور یہ فرمایشیں پوری کی گئیں، اور اکثریہی ہوتاہے کہ حلال آمدنی سے یہ بے جا فرمایشیں پوری نہیں ہوتیں، تو اس گناہ کا باعث یہ بی بی ہوئی اور گناہ کا باعث بننا بھی گناہ ہے، یہ چھٹا گناہ ہوا۔ اکثر ایسے جوڑے کے لیے گوٹا، ٹھپا، مصالح بھی لیا جاتاہے اور بوجہ بے علمی یا بے پروائی کے اس کی بیع میں اکثر سود لازم آجاتاہے، کیوںکہ چاندی سونے کی خریدوفروخت کے مسائل بہت نازک ہیں۔ چناںچہ رسالہ صفائی معاملات میں اس کے مسائل بھی بیان کیے ہیں۔ بہر حال یہ ساتواں گناہ ہوا۔
پھر غضب یہ ہے کہ ایک شادی کے لیے جو جوڑا بنا وہ دوسری شادی کے لیے کافی نہیں، اس کے لیے پھر دوسرا جوڑا چاہیے، ورنہ عورتیں نام رکھیں گی، یہی گناہ پھر دوبارہ جمع ہوں گے۔ گناہ کا بار بار کرنا ایک قسم کا اصرار ہے جو خود مستقل گناہ ہے، یہ آٹھواں گناہ ہوا۔
یہ تو پوشاک کی تیاری تھی، اب زیور کی فکر ہوئی، اگر اپنے پاس نہیں ہوتا تو مانگا تانگا پہنا جاتا ہے۔ اور اس کی عاریت ہونے کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے اور اس کو اپنی ہی ملکیت ظاہر کیا جاتاہے، یہ ایک قسم کاخداع و کذب1 ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’جو شخص بہ تکلف اپنی آسودگی ظاہر کرے ایسی چیز سے جو اس کی نہیں ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے دوکپڑے جھوٹ اور فریب کے پہن لیے‘‘۔2 یعنی سر سے پاؤں تک جھوٹ ہی جھوٹ لپیٹ لیا، یہ نواں گناہ ہوا۔ پھر اکثر زیور بھی ایسا پہنا جاتاہے جس کی جھنکار دور تک جاوے، تاکہ محفل میں جاتے ہی سب کی نگاہیں ان ہی کے نظارہ میں مشغول ہوجائیں۔ بجتا زیور پہننا خود ممنوع ہے۔ حدیث میں ہے ہر باجے کے ساتھ شیطان ہے،1 یہ دسواں گناہ ہوا۔
اب سواری کا وقت آیا تو نوکر کو ڈولی لانے کا حکم ہوا یا صاحبِ تقریب کے یہاں سے ڈولی آئی، تو بی بی کو غسل کی فکر پڑی، کچھ کھلی پانی کی تیاری میں دیر ہوئی، کچھ نیت غسل کے باندھنے میں دیر ہوئی۔ غرض اس دیر دیر میں نماز جاتی رہی، تب بھی کچھ پروا نہیں اور کسی کام ضروری میں حرج ہوجائے تب بھی کچھ مضایقہ نہیں، اور اکثر ان بھلے مانسوں کو غسل کے روز یہی مصیبت پیش آتی ہے۔ اگر نماز قضا ہوگئی تو گیارہواں گناہ ہوا۔ اب کہار دروازے پر پکار رہے ہیں۔ بی بی اندر سے ان ہی کو گالیاں اور کوسنے سنارہی ہیں۔ بلا وجہ کسی غریب کو دور دبک کرنا یا گالی سنادینا صریح ظلم ہے، یہ بارہواں گناہ ہوا۔
اب خدا خدا کرکے بی بی تیار ہوئیں، کہاروںکو ہٹا کر سوار ہوئیں، بعض عورتیں ایسی بے احتیاط ہوتی ہیں کہ ڈولی کے اندر سے پلاّ لٹک رہا ہے یا کسی طرف سے پردہ ہی کھل رہا ہے یا عطر وپھلیل اس قدر ملا ہے کہ راستہ میں خوش بو مہکتی جاتی ہے، یہ