ہیں، یعنی اس کھاتے کا منہ تکا کرتے ہیں اور ڈومنیاں دروازہ پر بیٹھ کر گالیاں گاتی ہیں۔ اس میں بھی خوان بنانا اسی التزام مالا یلزم میں داخل اور خلافِ شرع ہے۔ دوسری خرابی اس میں یہ ہے کہ ڈومنیوں کو ان کے گانے کی اُجرت دینا حرام لکھا ہے، پھر گانا بھی گالیاں، جو خود موجبِ گناہ ہیں۔ اور حدیث میں اس کو علاماتِ نفاق فرمایا ہے،1 یہ تیسرا گناہ ہوا جس میں سب سننے والے شریک ہیں، کیوںکہ جو شخص گناہ کے مجمع میں شریک ہے وہ بھی گناہ گار ہوتاہے۔ چوتھے مردوں کے اجتماع کا ضروری سمجھنا جوکہ التزامِ مالا یلزم میں داخل ہے۔ معلوم نہیں نائی کے شکرانہ کھانے میں اتنے بزرگوں کوکیا مدد کرنی پڑتی ہے، بس کچھ بھی نہیں، بقول شخصے اوپر سے یوںہی ہوتی آئی ہے۔
۴۔ نائی شکرانہ کھا کر مطابق ہدایت اپنے آقا کے ایک یا دو روپیہ خوان میں ڈال دیتا ہے اور یہ روپیہ دولہاکے حجام اور ڈومنیوں میں نصفا نصف تقسیم ہوتاہے۔ اور دوسرا خوان بجنسہٖ ڈومنیاں اپنے گھر لے جاتی ہیں۔ پھر برادری کی عورتوں کے لیے شکرانہ بناکر تقسیم کیا جاتاہے۔ اس میں بھی وہی رِیا وشہرت والتزامِ ما لا یلزم موجود ہے، اس لیے بالکل شرع کے خلاف ہے۔
۵۔ صبح کو برادری کے مرد جمع ہوکر خط کا جواب لکھتے ہیں اور ایک جوڑا حجام کونہایت بیش قیمت مع ایک کثیر رقم کے یعنی سو دوسو روپیہ کے دیتے ہیں۔ وہی تمسخر جو اوّل ہوا تھا یہاں بھی ہوتاہے کہ دکھلائے جاتے ہیں سو اور لیے جاتے ہیں ایک دو۔ پھر اس رِیا وحرکت لایعنی کے علاوہ احیا۔ًنا اس رسم کو پورا کرنے کو سودی قرض کی ضرورت پڑنا، یہ جداگانہ گناہ ہے جس کا ذکر مفصل اوپر آچکاہے۔
۶۔ اب نائی رخصت ہوکردلہن والوں کے گھر پہنچتا ہے۔ وہاں برادری کی عورتیں پہلے سے جمع ہوتی ہیں۔ حجام اپنا جوڑا گھر میں دکھلانے کے لیے دیتاہے اور پھر ساری برادری میں گھر گھر دکھلایا جاتاہے۔ اس میں بھی وہی عورتوں کی جمعیت اور جوڑا دکھلانے میں رِیا و نمود کی خرابی ظاہرہے۔
۷۔ اس تاریخ سے دولہا کے ۔ُبٹنا ملا جاتاہے اور تاریخِ معینہ شادی تک کنبہ کی عورتیں جمع ہوکر دولہا کے گھر ۔َبری کی اور دلہن کے گھر جہیز کی تیاری کرتی ہیں۔ اور اس درمیان میں جو مہمان فریقین کے گھر آتے ہیں ان کا آنے کا کرایہ دیا جاتاہے۔ اس میں وہی عورتوں کی جمعیت اور التزامِ مالا یلزم تو ہے ہی اور کرایہ کا اپنے پاس سے دینا خواہ دل چاہے یا نہ چاہے محض نمود، اظہارِ شان کے لیے یہ مزید برآں ہے۔ اسی طرح آنے والوں کا یہ سمجھنا کہ ان کے ذمے واجب ہے، یہ ایک قسم کا جبر ہے۔ رِیا و جبر دونوں کا خلافِ شرع ہونا ظاہر ہے اور اس سے بڑھ کر قصہ ۔َبری وجہیز کا ہے جو شادی کے اعظم ارکان سے ہیں اور ہرچند کہ دونوں امر یعنی یہ ۔َبری یا ساچق جو درحقیقت زوج یا اہلِ زوج کی طرف سے زوجہ یا اہلِ زوجہ