حق کی شرعًا دو صورتیں ہیں: یا تو عین حق پہنچے جیسے کسی کا ایک روپیہ چاہتا ہو، روپیہ ہی دے دیا، ایک من غلہ چاہیے تھا، غلہ ہی دے دیا، یا دوسری صورت یہ ہے کہ عین حق کی دوسری شے ادا کی گئی ہو، سو یہ معاوضہ ہے۔ اس میں معاوضہ کی تمام شرائط جن کی رعایت شرعًا واجب ہے، موجود ہونا ضروری ہے جو کہ کتبِ فقہ کی کتاب البیع میں مذکور ہیں اور اگر دونوں صورتیں نہ ہوں تو اصل حق ذمے رہتا ہے۔ مثلاً: کسی شخص کے ذمے کسی کا روپیہ آتا ہو اور وہ اس کی دعوت کرکے اس میں ایک روپیہ کی شیرینی یا طعام کھلادے، ہر شخص جانتا ہے کہ اس سے وہ روپیہ ادا نہ ہوگا، بلکہ بدستور واجب رہے گا۔ ظاہر ہے کہ ’’بھات‘‘ میں جو دیا جاتاہے وہ نہ عین حق ہے اور نہ اس میں معاوضہ کی شرائط جمع ہیں، یوں ہی من سمجھوتی ہے۔
غرض وجہ اس ایجاد کی یا تو رسمِ کفار کا اتباع ہے کہ وہ بھی حرام ہے اور یا بنا اس کی ظلم ہے کہ وہ بھی حرام ہے۔ دو خرابیاں تو اس کی یہ ہیں۔ تیسری خرابی اس میں یہ ہے کہ خواہ اس موقع پر نانہال والوں کے پاس ہو یا نہ ہو، ہزار جتن کرو، سودی قرض لو، کوئی چیز گروی رکھو، جس میں آج کل یا تو نقد سود دینا پڑتاہے یا پیداوار اس جائیداد کا مرتہن لیتا ہے کہ وہ بھی سود ہی ہے۔ گو زمینداروں کے فرقے نے اس کو حلال سمجھ لیا ہے۔ (رسالہ صفائی معاملات میں بفضلہ تعالیٰ سب شبہات اس کے متعلق رفع کردئیے گئے ہیں) بہرحال سود کی پروا نہیں رہتی۔ غرض کچھ ہو، مگر یہاں کا سامان ضرور ہو۔
اب فرمائیے! جب ایک امر غیر ضروری بلکہ معصیت کا اہتمام ایسے زور شور سے ہو کہ فرائض و واجبات کا بھی وہ اہتمام نہ ہو تو یہ تعدّی حدود شرعیہ سے ہے یا نہیں؟ چوتھی خرابی یہ ہے کہ نیت اس میں بھی وہی شہرت اور تفاخر کی ہے جس کا حرام ہونا بار بار مذکور ہوچکا ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اپنے عزیزوں سے سلوک کرنا عبادت ہے۔ جواب یہ ہے کہ صلہ رحمی و سلوک منظور ہوتا تو بلا پابندیٔ رسم جب ان کو حاجت ہوتی ہے، ان کی خدمت کرتے، اب تو عزیزوں پر خواہ فاقے گزر جائیں خبر بھی نہیں لیتے۔ اپنے نام ونمود کے لیے تاویلِ صلہ رحمی سوجھنے لگی۔
۵۔ بعض شہروں میں یہ آفت ہے کہ اس تقریب میں یا مخصوص غسلِ صحت کے روز خوب راگ باجہ ہوتاہے، اور کہیں ناچ ہوتاہے، کہیں ڈومنیاں گاتی ہیں، جن کامذموم ہونا اوّل میں لکھا گیا ہے، اور جس کے مفاسد ان شاء اللہ تعالیٰ عنقریب مذکورہوں گے۔ غرض ان خرافات و معاصی کو موقوف کرنا چاہیے۔
جب بچہ میں قوت برداشت کی دیکھی جائے، چپکے سے نائی کو بلاکر ختنہ کرادیں۔ جب اچھا ہوجائے غسل کرادیں۔ اگر گنجایش ہو اور بار بھی نہ ہو اور پابندی بھی نہ کرے اور شہرت و نمود اور طعن وبدنامی کا بھی خیال نہ ہو، شکریہ میں دو چار اعزہ واحباب یا دو چار مساکین کو ماحضر کھلادے۔ اللہ اللہ خیرصلاح۔