حدیث پر ضعف کا حکم لگائیں۔ اچھا صاحب! ایک حدیث ضعیف ہی سہی، مگر یہ بے شمار حدیثیں کیا سب بلا دلیل ضعیف مان لی جائیں گی؟! پھر یہ مسئلہ تو قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔ قال اللّٰہ تعالیٰ:{یٰٓاَ أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا ادْخُلُوْا فِیْ السِّلْمِ کَافَّۃً}8 وقال اللّٰہ تعالیٰ: {یٰٓاَ أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا}9 ان کی تفسیر اور شان نزول تو ذرا تحقیق فرمائیے اور خود حکمِ کاف کو جو تشبیہ کے لیے ہے ملاحظہ فرمائیے، تو معلوم ہوگا کہ قرآن مجید سے یہ مسئلہ ثابت ہے، پھر کیا قرآن مجید کوبھی ضعیف کہہ دیا جائے گا، خدا خیر کرے۔
بعض لوگ عقلی شبہات اس میں پیدا کرتے ہیں کہ صاحب اگر تشبہ۔ّ حرام ہے تو کھانا بھی مت کھاؤ، چہرہ پر سے ناک بھی اڑادو، کیوں کہ دوسری قوموں کے ساتھ اس میں بھی شرکت ہے۔ اس کی تو ایسی مثال ہے کوئی شخص زنا کے حرام ہونے پر یہ شبہ کرے کہ صاحب اگر یہ حرام ہے تو نکاح میں جو صحبت ہوتی ہے وہ بھی حرام ہونا چاہیے، کیوںکہ صورت فعل میں تو دونوں کو شرکت ہے۔ بات یہ ہے کہ جس فن میں آدمی کو دخل نہ ہو اس میں گفتگو کرکے، کیوں بے فائدہ اپنی بے قدری ظاہر کرے۔ یہ مسئلہ شرعی ہے، اہلِ شرع سے اس کی تحقیق کر لینا چاہیے کہ تشبہ۔ّ حرام کون سا ہے، اس کو سمجھ کر پھر جو کچھ کہنا ہو کہے۔
سو اس کی تحقیق یہ ہے کہ جو امر بھی خود مذموم وممنوع ہو، اس میں تو تشبہ۔ّ مطلقًا حرام ہے۔ مثلاً: پتلون جس میں ٹخنے ڈھکے ہوں، اگر اس میں تشبہ۔ّ سے بھی قطع نظر کی جاوے تو بوجہ ٹخنے ڈھک جانے کے یہ ممنوع ہے، جیسا اوپر حدیث آچکی ہے اور اب چوںکہ اس میں تشبہ۔ّ بھی ہے، مضاعف گناہ ہوجاوے گا۔ اور اگر وہ فعل فی نفسہٖ غیر مذموم اور مباح ہے تو اگر بقصدِ تشبہ۔ّ اس کو کیا جاوے یا کسی قوم کا عرفًا خاصہ ہوتو بھی ناجائز ہوگا، اور اگر خود وہ فعل حلال ہے اور قصد تشبہ کا بھی نہیں، اور نہ کسی قوم کا خاصہ ہے تو درست ہے۔ قواعد و احکامِ شرعیہ کو ٹٹولنے سے اس قاعدہ کی تصدیق ہوسکتی ہے۔ اب ناک کاٹنے اور کھانا چھوڑنے کا شبہ بالکل دفع ہوگیا اور جس جس تشبہ۔ّ ِحرام میں لوگ مبتلا ہورہے ہیں، نظر ِانصاف سے سب کا حال معلوم ہوگیا۔ اوّل تو جن چیزوں میں مشابہت اختیار کررکھی ہے وہ ایک قوم کا عرفًا خاصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اہلِ وطن کو اس وضع میں دیکھ کر جمہور خلائق کو وحشت ہوتی ہے اور خاصہ کا ممنوع ہونا اوپر گذر ہی چکا اور اگر کھینچ تان کر کوئی شخص ان اوضاع کو خاصہ کے افراد سے نکال کر تمام ملک اور تمام قوموں میں عام و شائع قرار دے، گو یہ دعوی غلط ہے، ان اوضاع میں ایسا عموم وشیوع نہیںکہ عرفاً اس قوم کا خاصہ نہ سمجھا جائے، جولوگ کسی حکومت پر ہیں یا اس قسم کی صحبت زیادہ رہتی ہے، بجز ان کے تمام ملک اور تمام قوم اپنی پرانی وضع لیے ہوئے ہیں۔ اگر فرضًا تسلیم بھی کرلیا جائے تو خاصہ نہ سہی، مگر جو شخص اس وضع کو اختیار کرتا ہے۔ چناںچہ اکثر اوقات بے ساختہ اقرار بھی کرلیتے ہیں کہ