اور عقل کے موافق بھی یہی بات ہے کہ حاکم کو حاکم ماننے کے لیے جتنی حجتیں کرلی جاویں جب حاکم ہونا تسلیم کرلیا، پھر اس کے ہر ہر حکم میں حجتیں کرنا صریح بغاوت ہے۔ میں خیر خواہی سے عرض کرتاہوں کہ ہر حکم کی علت ڈھونڈنا اور اس کے تسلیم میں علت کا انتظار کرنا بالکل الحاد کا پھاٹک ہے۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا۔
غرض حکمِ شرعی کو بلا نزاع مان لینا واجب ہے۔ ہاں! ماننے کے بعد تحقیقِ حکمت کے لیے بطورِ استفادہ کے غور کیا جاوے تو وجہ بھی نکل آتی ہے۔ چناںچہ راقم ریل میں ایک بار سفرکررہا تھا، ایک نوجوان کتا لیے ہوئے سوار تھے۔ اور انہوں نے کتے کے کمالات بیان کرکے یہی سوال کیا۔ میں نے عرض کیا کہ بے شک کتے میں یہ کمالات ہیں، مگر اس میں ایک عیب ایسا سخت ہے جس نے تمام کمالات پر خاک ڈال دی، اس لیے شرعًا خبیث قرار پایا۔ پوچھنے لگے: وہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ’’اس میں قومی ہمدردی نہیں ہے۔ اپنے ہم جنس کو دیکھ کر اس کی جو کیفیت ہوتی ہے سب کو معلوم ہے‘‘۔ چوںکہ جواب صحیح تھا اور سائل کے مذاق کے موافق بھی ۔ بس دم بخود ہوگئے، بلکہ خوش ہوکر موافقت بھی کرلی۔
بعض لوگ زبردستی کی ضرورتیں تراش لیتے ہیں کہ ہم نے حفاظتِ مکان کے لیے پالا ہے۔ صاحب اللہ تعالیٰ ارادہ اور نیت کو دیکھتے ہیں۔ جب خاص قصدِ تفریح سے پالتے ہیں تو ایسی تصنیعی ضرورت سے اجازت نہیں ہوسکتی۔ پھریہ کہ کتوں سے تو حفاظت وہ کرے جس کے پاس نوکر، دربان، پہرہ دار نہ ہو۔ جب ماشاء اللہ ایک ایک کام کے لیے متعدد نوکر ہیں تو کتوں کی کون سی ضرورت رہ گئی۔ اسی طرح شکار کا پورا سامان بندوق، چھرہ جس کو میسر ہو وہ کتے کیوں پالے۔
اسی طرح بعض لوگ تصویر کے مقد۔ّمہ میںمعارضہ کرتے ہیں کہ ہم پوری تصویر نہیں بناتے اور نہیں رکھتے، بلکہ صرف گردن تک ہوتی ہے اور جب تصویر میں ایسا عضو کم ہوجائے
جس کے بغیر حیات ممکن نہیں تو ایسی تصویر جائز ہوتی ہے۔ ان حضرات نے بھی ناحق دخل در معقولات دیا۔ اصل یہ ہے کہ عضو کے کم ہوجانے سے حرمت اس لیے نہیں رہتی کہ وہ تصویر نہیں معلوم ہوتی، بلکہ جاڑیا درخت وغیرہ معلوم ہونے لگتاہے اور چہرہ تو تمام تصویرکی ناک ہے۔ جب یہ باقی ہے پس پوری تصویر کے قائم مقام ہے اور ہرگز اس کی اجازت نہیں ہوسکتی۔ بعض لوگ مانعین پر اعتراضا۔ً کہتے ہیں کہ صاحب تم روپیہ گھر میں کیوں رکھتے ہو، اس میں بھی تو تصویر ہے۔ یہ طعن بھی نہایت بے جا ہے۔ بات یہ ہے کہ روپیہ تو ایک ضرورت کی چیز ہے، ضرورت میں تنگی کم ہوجاتی ہے۔ اور یہ لوگ محض زینت وآرایش کے شوق میں تصویر لگاتے ہیں، کجا یہ کجا وہ؟! بعض لوگ فوٹو کو حرمتِ تصویر سے مستثنیٰ سمجھتے ہیں کہ اس میں خود تصویر اتر آئی ہے، کوئی بناتا نہیں۔ ماشاء اللہ کیا ہی غضب کا اجتہاد ہے۔ اس کا سامان جمع کرنا، صاحبِ تصویر کے رُوبرو اس کا رکھنا، یہ تصویر کشی نہیں تو کیا ہے؟