رکھے! میر امقصود یہ ہے کہ وہ جو ایک سادہ رنگ خلوص کا طلبۂ سابقین میں تھا جس سے ان کو دیکھ کر ان کی طرف دل کو بے انتہا کشش ہوتی تھی اور اگر کبھی عوام دنیاداروں کی جماعت میں کوئی طالبِ علم آجاتا تھا تو اس کے بشرہ سے اور اس کی وضع و انداز سے مترشح ہوجاتا تھا کہ یہ طالبِ علم ہے اور یہ علمِ دین کی تحصیل میں مشغول ہے۔ افسوس ہے کہ اب یہ رنگ مفقود ہوتا جاتا ہے اور نیا رنگ طبائع میں پیدا ہوتا جاتا ہے، وہ بے تکلفی اور سادگی رخصت ہوتی جاتی ہے بلکہ ہوگئی۔
بعض کی وضع و انداز سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی بابو ہیں، ترکی ٹوپی سر پر ہے، شیروانی پہنے ہوئے ہیں، جیب میں گھڑی لگی ہوئی ہے۔ ان کو دیکھ کر طالبِ علمی کا یقین تو کیا احتمال بھی نہیں ہوتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کہیں کے رئیس ہیں۔ نہ چہرے پر تقویٰ کے انوار ہیں، نہ آواز و لہجہ میں خشوع و خضوع کے آثار ہیں۔ اگر کسی سے بات کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی وکیل، بیرسٹر گواہ عدالت سے جرح کررہا ہے۔ اگر عبارت تحریر کریں گے تومعلوم ہوتا ہے کہ تعزیراتِ ہند کی دفعات لکھ رہے ہیں۔ کتاب میں جی نہیں لگاتے، اخباروں او رپرچوں میں بحیلۂ خدمتِ دین مضامین لکھ رہے ہیں۔ مطالعہ و تکرارِ اسباق سے نفور ہیں اور مناظرہ اور تقریر کے برجستہ کرنے کی فکر میں ہیں۔ ان میں بعض لوگ اس کی تاویل کرتے ہیں کہ ضرورتِ زمانہ ان امور مجبور پر کرتی ہے کہ تحریر و تقریر ایسی ہو کہ پسندیدۂ ابنائے زمان ہو تاکہ ان کو تبلیغ کرسکیں۔
میں اس کا مخالف نہیں ہوں۔ واقعی اس کی تحصیل ضروری ہے، لیکن اس کے اندر جو مفسدہ خفیہ ہے اس کی اطلاع بھی ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ تجربہ کی رو سے ایسی تقریر و تحریر حبِ۔ّ جاہ پیدا کرنے والی ہے اور خلوص کے رنگ کو ملیامیٹ کردینے والی ہے اور قلوب میں ترقیٔ مذموم کا مضمون جما دینے والی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ طالبِ علم اخلاص اور سادگیٔ قلب سے جدا ہوکر صرف عبارت آرائی اور دعویٰ ہی دعویٰ رہ جاتے ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک عام طلبہ کو عموماً ایسی تقریر و تحریر اور نئی روشنی والوں کے ساتھ افادہ کی غرض سے یا استفادہ کی نیت سے ملنے سے قطعاً روکا جائے، اور تبلیغِ احکام اور مخالفین کے مضامین کو ردّ کرنے کے لیے منتہی طلبہ کی ایک جماعت کو منتخب کیا جائے، اور اول ان کو حضرات اہل اللہ کی خدمات میں بھیجا جائے کہ چند روز وہاں رہ کر اپنے اخلاق کی درستی کریں اور خلوص کا کچھ حصہ حاصل کریں۔
میرا مطلب یہ نہیں کہ وہ صوفی بنیں یا ذکر کی ضربیں لگائیں، مقصود یہ ہے کہ ان کی صحبت میں رہیں ان شاء اللہ تعالیٰ اخلاص کا کچھ حصہ ضرور ان کو ملے گا۔ اور پہلے زمانے میں اس کی ضرورت نہ تھی اس لیے کہ مخلصین کی کثرت تھی اور یہ نیا رنگ طبائع میں نہ تھا، لیکن اب ضرورتِ شدیدہ ہے۔ جب وہ ایک کافی مدت میں ان کی خدمت سے مستفید ہوجائیں اس وقت ان کو منصبِ مناظرہ تحریری یا تقریری پر مقرر فرمائیں۔ اس کے بعد خواہ ان کی تحریر و تقریر کسی طرز کی ہو مضر