Deobandi Books

حقوق العلم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

81 - 82
رکھے! میر امقصود یہ ہے کہ وہ جو ایک سادہ رنگ خلوص کا طلبۂ سابقین میں تھا جس سے ان کو دیکھ کر ان کی طرف دل کو بے انتہا کشش ہوتی تھی اور اگر کبھی عوام دنیاداروں کی جماعت میں کوئی طالبِ علم آجاتا تھا تو اس کے بشرہ سے اور اس کی وضع و انداز سے مترشح ہوجاتا تھا کہ یہ طالبِ علم ہے اور یہ علمِ دین کی تحصیل میں مشغول ہے۔ افسوس ہے کہ اب یہ رنگ مفقود ہوتا جاتا ہے اور نیا رنگ طبائع میں پیدا ہوتا جاتا ہے، وہ بے تکلفی اور سادگی رخصت ہوتی جاتی ہے بلکہ ہوگئی۔ 
بعض کی وضع و انداز سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی بابو ہیں، ترکی ٹوپی سر پر ہے، شیروانی پہنے ہوئے ہیں، جیب میں گھڑی لگی ہوئی ہے۔ ان کو دیکھ کر طالبِ علمی کا یقین تو کیا احتمال بھی نہیں ہوتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کہیں کے رئیس ہیں۔ نہ چہرے پر تقویٰ کے انوار ہیں، نہ آواز و لہجہ میں خشوع و خضوع کے آثار ہیں۔ اگر کسی سے بات کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی وکیل، بیرسٹر گواہ عدالت سے جرح کررہا ہے۔ اگر عبارت تحریر کریں گے تومعلوم ہوتا ہے کہ تعزیراتِ ہند کی دفعات لکھ رہے ہیں۔ کتاب میں جی نہیں لگاتے، اخباروں او رپرچوں میں بحیلۂ خدمتِ دین مضامین لکھ رہے ہیں۔ مطالعہ و تکرارِ اسباق سے نفور ہیں اور مناظرہ اور تقریر کے برجستہ کرنے کی فکر میں ہیں۔ ان میں بعض لوگ اس کی تاویل کرتے ہیں کہ ضرورتِ زمانہ ان امور مجبور پر کرتی ہے کہ تحریر و تقریر ایسی ہو کہ پسندیدۂ ابنائے زمان ہو تاکہ ان کو تبلیغ کرسکیں۔
میں اس کا مخالف نہیں ہوں۔ واقعی اس کی تحصیل ضروری ہے، لیکن اس کے اندر جو مفسدہ خفیہ ہے اس کی اطلاع بھی ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ تجربہ کی رو سے ایسی تقریر و تحریر حبِ۔ّ جاہ پیدا کرنے والی ہے اور خلوص کے رنگ کو ملیامیٹ کردینے والی ہے اور قلوب میں ترقیٔ مذموم کا مضمون جما دینے والی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ طالبِ علم اخلاص اور سادگیٔ قلب سے جدا ہوکر صرف عبارت آرائی اور دعویٰ ہی دعویٰ رہ جاتے ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک عام طلبہ کو عموماً ایسی تقریر و تحریر اور نئی روشنی والوں کے ساتھ افادہ کی غرض سے یا استفادہ کی نیت سے ملنے سے قطعاً روکا جائے، اور تبلیغِ احکام اور مخالفین کے مضامین کو ردّ کرنے کے لیے منتہی طلبہ کی ایک جماعت کو منتخب کیا جائے، اور اول ان کو حضرات اہل اللہ کی خدمات میں بھیجا جائے کہ چند روز وہاں رہ کر اپنے اخلاق کی درستی کریں اور خلوص کا کچھ حصہ حاصل کریں۔ 
میرا مطلب یہ نہیں کہ وہ صوفی بنیں یا ذکر کی ضربیں لگائیں، مقصود یہ ہے کہ ان کی صحبت میں رہیں ان شاء اللہ تعالیٰ اخلاص کا کچھ حصہ ضرور ان کو ملے گا۔ اور پہلے زمانے میں اس کی ضرورت نہ تھی اس لیے کہ مخلصین کی کثرت تھی اور یہ نیا رنگ طبائع میں نہ تھا، لیکن اب ضرورتِ شدیدہ ہے۔ جب وہ ایک کافی مدت میں ان کی خدمت سے مستفید ہوجائیں اس وقت ان کو منصبِ مناظرہ تحریری یا تقریری پر مقرر فرمائیں۔ اس کے بعد خواہ ان کی تحریر و تقریر کسی طرز کی ہو مضر 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 علومِ دینیہ سے بے رغبتی کے اسباب 9 1
3 اَلْبَابُ الْأَوَّلُ 10 1
4 دین کے اجزا 11 3
5 علمِ دین کے دو مرتبے 11 3
6 علم کے ہر مرتبہ کو سیکھنے کا شرعی حکم 13 3
7 ۔ُعلما۔َ سے علم حاصل کرنے کا طریقہ 13 3
8 دو شبہات کے جواب 14 3
9 کیا مولوی بننے سے پست خیالی او رکم ہمتی پیدا ہوتی ہے 17 3
10 باب اول کی تیسری فضل کے بعض اجزا کی ضروری توضیح اور تفریع 21 3
11 مال خرچ کرنے میں احتیاط بخل نہیں ہے 22 3
12 صرف عربی زبان جاننے کا نام مولوی نہیں ہے 23 3
13 باریک لکھنے پر اعتراض کا جواب 24 3
14 تواضع کو تذلل سمجھنا غلط ہے 24 3
15 کمروں کی صفائی نہ کرنے پر اعتراض اور اس کا جواب 25 3
16 طلبہ کے کپڑوں پر شبہ کا جواب 26 3
17 طلبہ کا بے ڈھنگا پن 26 3
18 کیا مولوی بدتہذیب ہوتے ہیں 27 3
19 متفرق شبہات کے جوابات 33 3
20 ۔ُعلما۔َ کے درمیان عناد و حسد ہونے کا شبہ 33 3
21 ۔ُعلما۔َ کا آپس میں اختلاف کرنا 34 3
22 زمانہ کی مصلحت کا لحاظ نہ کرنے کا شبہ 36 3
23 ۔ُعلما۔َ کا لوگوں کے حال پر رحم نہ کرنے کا 37 3
24 تقریر و تحریر سے واقف نہ ہونے کا شبہ 38 3
25 دنیا کے قصوں سے بے خبر ہونے کا شبہ 39 3
26 اَلْبَابُ الثَّانِيْ 40 1
27 عمل کی ضرورت نہ ہونے کا غلط خیال 40 26
28 علومِ دینیہ کی طرف نسبت رکھنے والے بعض لوگوں کی غلطی 41 26
29 احتمال، وسوسہ، طمع اور اشراف میں فرق 42 26
30 مدرسہ یا انجمن کے لیے سوال کرنے کا حکم 43 26
31 علما۔َ کو نصیحت 45 26
32 بعض مولویوں کی غلطی اور اس کا نقصان 47 26
33 بعض ۔ُعلما۔َ کا خیال غلط اور اس کا نقصان 48 26
34 اُ۔َمرا سے اجتناب کے وقت کیا نیت ہونی چاہیے 50 26
35 دنیاداروں کو دھتکارنا مناسب نہیں ہے 50 26
36 شہرت حاصل کرنے کی ایک حرکت 51 26
37 مناظرہ کرنا کب ضروری ہے 52 26
38 مناظرہ کے شرائط 55 26
39 مناظرہ کے شرائط و مفاسد سے چشم پوشی کا نتیجہ 56 26
40 پہلے ۔ُعلما۔َ کے مناظرہ پر اپنے مناظرہ کو قیاس کرنا درست نہیں ہے 57 26
41 وعظ کو طلبِ جاہ کا ذریعہ بنانے کی خرابی 58 26
42 مدارس کی بعض اصلاحات میں 59 1
43 مدارس میں بھی بعض اصلاحات کی ضرورت ہے 59 42
44 زبردستی چندہ لینا درست نہیں 60 42
45 دوامی چندہ نہ دینے والوں کے نام شائع کرنا بری بات ہے 61 42
46 صحیح حیلۂ تملیک 61 42
47 چندہ کی رقم میں عدمِ احتیاط 62 42
48 کھانے کے لیے طلبہ کو کسی کے گھر بھیجنا مناسب نہیں ہے 62 42
49 طلبہ کے اعمال اور وضع قطع پر روک ٹوک ضروری ہے 63 42
50 کمالِ علمی کے بغیر سندِ فراغ دینا نقصان دہ ہے 63 42
51 مدارس میں تقریر و تحریر کا انتظام کرنا چاہیے 63 42
52 طلبہ کی رائے کے مطابق تعلیم مناسب نہیں ہے 63 42
53 مدارس میں تجوید اور اخلاق کی کتاب داخلِ درس ہونا ضروری ہے 64 42
54 مدارس کا باہم تصادم بہت نقصان دہ ہے 64 42
55 مسلمانوں کو تنبیہ 65 42
56 بعض مدرسین کی کوتاہی 65 42
57 واعظین و مصنّفین اور مفتیوں کی اصلاحات 66 1
58 اہلِ علم کا وعظ نہ کہنا غلط ہے 66 57
59 بعض واعظین کی کوتاہیاں 67 57
60 تصنیف میں کوتاہیاں،اصلاحات متعلقہ تصنیف 67 57
61 فتویٰ دینے میں کوتاہیاں 67 57
62 متفرق اصلاحات 69 1
63 اہلِ علم کا لباس وغیرہ میں تکلف کرنا نامناسب ہے 69 62
64 اہلِ دنیا کا سلوک ۔ُعلما۔َ کے ساتھ 70 62
65 ناصح الطلبہ 71 62
66 طلبہ میں انقلاب 72 62
67 طلبہ کی نااہلی کا غلط ثمرہ 73 62
68 عو ام کا غلط نظریہ 73 62
69 علما۔َ سے درخواست 74 62
70 طلبہ میں بداستعدادی کے اسباب 74 62
71 مدرسین کو چاہیے کہ طلبہ کی استعداد سے کام لیں 75 62
72 طلبہ کی فہم کی قوت کو کام میں لانے کی ضرورت ہے 75 62
73 ہر مضمون کی تقریر استاد نہ کیا کریں 77 62
74 طلبہ سے کتاب حل نہ کرانے کا عذر 78 62
75 مدرّسین سے گزارش 79 62
76 کم عمر طلبہ کی تربیت کا طریقہ 79 62
77 طلبہ کو بے تکلفی اور سادگی اپنانی چاہیے 80 62
Flag Counter