ہیں اور اپنے طبائع پر زور نہیں ڈالتے اور نہ اساتذہ کی طرف سے اس کی تاکید ہوتی ہے، اس لیے ان کی قوتِ فہم معطل ہوکر کمزور رہ جاتی ہے اور استعداد جس مرکز پر ہوتی ہے وہاں ہی ٹھہر جاتی ہے گو برائے نام کتابیں بھی ختم ہوجائیں۔ اس لیے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس طریقِ تدریس میں کچھ ترمیم کی جاوے، اور وہ یہ ہے کہ طلبہ کی استعداد سے کام لیا جائے۔ خود ان کو بلا ضرورتِ شدیدہ امداد نہ دی جائے۔ جو مقام ایسا ہو کہ ان کی استعداد سے باہر ہو اس کی تقریر تو خود کردی جایا کرے ورنہ خود ان سے ہی تقریر کرائی جاوے۔
اور نیز ہر قاعدہ اور مسئلہ کے متعلق کثرت سے امثلۂ مشقیہ دریافت کی جائیں تاکہ وہ
قاعدہ خوب جاری ہوجائے اور یہ طریق گو تمام درس میں مفید ہے، لیکن ابتدائی کتب میں تو بہت ہی ضروری ہے۔ اس لیے کہ مبتدیوں کی حالت نہایت ردّی دیکھی جاتی ہے اور جب ابتدا درست ہوجاتی ہے تو پھر اور کتب بھی سہل ہوجاتی ہیں۔ بطور تمثیل کے بعض بعض ابتدائی کتابیں اور بعض متوسط کتب کے متعلق اس طریق کو مفصلاً عرض کرتا ہوں۔ مثلاً ’’میزان‘‘ ’’منشعب‘‘ جب شروع ہو تو ایسا نہ کیا جائے کہ سبق پڑھا دیا اور اس کوحفظ سن لیا۔ اس سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ سبق پڑھا کر اور یاد کراکر اس کے متعلق امثلہ مشقی بکثرت دریافت کی جاویں۔
۱۔ مثلاً ماضی کی بحث پڑھائی تو کم از کم تین چار سو مختلف صیغے ماضی کے دریافت کیے جاویں۔
۲۔ اور مصادر دے کر ان سے ماضی کے صیغے بنوائے جاویں۔
۳۔ اور مصادر کے معنی بتاکر ان کے ماضی کے صیغوں کی اردو دے دی جاوے کہ اس کی عربی بنائیں۔
۴۔ اگرچہ اس اجرا میں کئی روز صر ف ہوجاویں بجائے سبق کے یہی کام ہونا چاہیے۔
۵۔ اسی طرح جب دوسری بحث پڑھائی جائے اس کے متعلق بھی یہی عملدرآمد کیا جاوے۔ جب تمام ’’میزان‘‘ اس طرح ہوجائے تو ’’منشعب‘‘ شروع کرائی جائے اور ’’منشعب‘‘ کے مصادر کی ’’میزان‘‘ پر گردان کرائی جائے اور مختلف صیغے بکثرت دریافت کیے جائیں، اور نیز اردو کے صیغے ’’منشعب‘‘ کے مصادر کے متعلق دیے جاویں تاکہ اس کی عربی بناویں۔
۶۔ جب ’’پنج گنج‘‘ شروع ہو اس میں بھی یہی قاعدہ جاری کیا جائے۔ یعنی جو تعلیل تغیر کے قواعد ہیں ہر قاعدہ کی کم از کم سو سو مثالیں ان سے دریافت کی جائیں۔
۷۔ او رمصادر دے کر ان کی گردان مع تعلیلات لکھوائی جائے۔
جب اس طور سے ’’پنج گنج‘‘ ختم ہوجائے تو ’’نحو میر‘‘ شروع کرائی جائے اور اس کے اندر قواعدِ ذیل کا لحاظ رکھا جائے: