۱۔ استفتا لے کر رکھ لینا اور مہینوں جواب نہ دینا۔
۲۔ محض تحصیلِ زر کے لیے افتا کواڑ بناکر اس پر فیس وغیرہ مقرر کرنا، البتہ اگر سچ مچ اس کی تکمیل و انتظام میں کچھ خرچ ہوتا ہو تو بقدر اس کے پورا کرنے کے کوئی مناسب مقدار اہلِ استطاعت پر بطورِ فیس کے لگادینے کا مضائقہ نہیں۔
۳۔ ہر سوال کے جواب کی کوشش کرنا اگر نہ بھی معلوم ہو تو یہ نہ کہنا کہ میں نہیں جانتا بلکہ کھینچ تان کر کچھ لکھ دینا، اسی طرح معلوم ہونے پر بھی ہر سائل کو سوال کا جواب دے دینا اس کا اثر بھی عوام میں بہت مذموم ہوتا ہے۔ پھر سائلین ۔ُعلما۔َ کو اپنا تابع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو سوال فی نفسہ غیرضروری ہو یا اس سائل کے اعتبار سے غیر ضروری ہو صاف کہہ دیا جاوے کہ یہ سوال غیر ضروری ہے۔ یا سائل دلیل دریافت کرے اور لیاقت دلیل سمجھنے کی نہ رکھتا ہو مجیب کو صاف جواب دے دینا چاہیے اس کے سمجھانے کی کوشش نہ کرے۔ جب دلیلِ اِ۔ّنی کے ذکر کرنے میں اس قدر تنگی کا مشورہ دیتا ہوں تو علت یعنی دلیلِ ۔ّلمی دریافت کرنے کی تو کبھی عوام کو گنجایش ہی نہ دے کہ اس کا علم تو خود ۔ُعلما۔َ کو بھی پورا پورا نہیں۔ الا ماشاء اللہ۔ مثلاً نماز پانچ وقت فرض ہونے کی دلیلِ اِ۔ّنی تو ارشاد ہے رسول اللہ ﷺ کااور دلیلِ ۔ّلمی اس کی وہ حکمتیں ہیں جن کی بنا پر نماز فرض کی گئی جس کو آج کل کی عام اصطلاح میں فلاسفی کہتے ہیں۔ اور جب مطلق دلیل بتلانے میں بھی سائل کی فرمایش کا پورا کرنا نامناسب ہے تو دلیل میں تخصیص کا اتباع تو اور بھی زیادہ نامناسب ہوگا۔ مثلاًبعضے فرمایش کیا کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں اس کا ثبوت لائو۔ اب مجیب صاحب ہیں کہ قرآن میں تلاش کرنے کے لیے پریشان ہیں دوسروں سے مدد لیتے پھرتے ہیں۔ مجھ کو ان حضرات کے تکلف سے تعجب ہوتا ہے کہ حکمِ شرعی کے لیے مطلق دلیلِ شرعی کافی ہے دلیلِ خاص کی حاجت نہیں۔
اور ادلۂ شرعیہ چار ہیں: کتاب و سنت و اجماع و قیاسِ مجتہد۔ ان میں سے اگر ایک دلیل سے بھی حکم ثابت کردیا جائے وہ ثابت ہوجائے گا، البتہ حسبِ تفاوتِ ادلہ کے خود ان احکام کے ثبوت کا درجہ بھی متفاوت ہوگا۔
۴۔ بعضے مستفتی حیلے پوچھا کرتے ہیں ہرگز نہ بتلانا چاہیے۔
۵۔ بعض اوقات سوال مہمل ہوتا ہے اور وہ محتمل دو صورتوں کو ہوتا ہے اور ہر صورت کا حکم جدا ہوتا ہے۔ وہاں اکثر اہلِ علم تشقیق سے جواب دے دیتے ہیں کہ اگر یہ صورت ہے تو یہ حکم ہے اور اگر وہ صورت ہے تو وہ حکم ہے۔ اس کا تجربہ کاروں نے منع فرمایا ہے کہ اس سے ناخدا ترس لوگوں کو اپنی مرضی کے موافق سوال تراش لینے کی گنجایش ملتی ہے کہ وہ اسی شق کے مدعی بن جاتے ہیں اور اصل واقعہ ملبّس ہوجاتا ہے۔ اس کے متعلق بندہ نے کسی قدر پرچۂ ’’القاسم‘‘ نمبر (۱) جلد (۱) میں بھی لکھا ہے ملاحظہ فرمالیا جاوے۔