Deobandi Books

حقوق العلم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

68 - 82
۱۔ استفتا لے کر رکھ لینا اور مہینوں جواب نہ دینا۔
۲۔ محض تحصیلِ زر کے لیے افتا کواڑ بناکر اس پر فیس وغیرہ مقرر کرنا، البتہ اگر سچ مچ اس کی تکمیل و انتظام میں کچھ خرچ ہوتا ہو تو بقدر اس کے پورا کرنے کے کوئی مناسب مقدار اہلِ استطاعت پر بطورِ فیس کے لگادینے کا مضائقہ نہیں۔
۳۔ ہر سوال کے جواب کی کوشش کرنا اگر نہ بھی معلوم ہو تو یہ نہ کہنا کہ میں نہیں جانتا بلکہ کھینچ تان کر کچھ لکھ دینا، اسی طرح معلوم ہونے پر بھی ہر سائل کو سوال کا جواب دے دینا اس کا اثر بھی عوام میں بہت مذموم ہوتا ہے۔ پھر سائلین ۔ُعلما۔َ  کو اپنا تابع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو سوال فی نفسہ غیرضروری ہو یا اس سائل کے اعتبار سے غیر ضروری ہو صاف کہہ دیا جاوے کہ یہ سوال غیر ضروری ہے۔ یا سائل دلیل دریافت کرے اور لیاقت دلیل سمجھنے کی نہ رکھتا ہو مجیب کو صاف جواب دے دینا چاہیے اس کے سمجھانے کی کوشش نہ کرے۔ جب دلیلِ اِ۔ّنی کے ذکر کرنے میں اس قدر تنگی کا مشورہ دیتا ہوں تو علت یعنی دلیلِ ۔ّلمی دریافت کرنے کی تو کبھی عوام کو گنجایش ہی نہ دے کہ اس کا علم تو خود ۔ُعلما۔َ  کو بھی پورا پورا نہیں۔ الا ماشاء اللہ۔ مثلاً نماز پانچ وقت فرض ہونے کی دلیلِ اِ۔ّنی تو ارشاد ہے رسول اللہ  ﷺ  کااور دلیلِ ۔ّلمی اس کی وہ حکمتیں ہیں جن کی بنا پر نماز فرض کی گئی جس کو آج کل کی عام اصطلاح میں فلاسفی کہتے ہیں۔ اور جب مطلق دلیل بتلانے میں بھی سائل کی فرمایش کا پورا کرنا نامناسب ہے تو دلیل میں تخصیص کا اتباع تو اور بھی زیادہ نامناسب ہوگا۔ مثلاًبعضے فرمایش کیا کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں اس کا ثبوت لائو۔ اب مجیب صاحب ہیں کہ قرآن میں تلاش کرنے کے لیے پریشان ہیں دوسروں سے مدد لیتے پھرتے ہیں۔ مجھ کو ان حضرات کے تکلف سے تعجب ہوتا ہے کہ حکمِ شرعی کے لیے مطلق دلیلِ شرعی کافی ہے دلیلِ خاص کی حاجت نہیں۔
اور ادلۂ شرعیہ چار ہیں: کتاب و سنت و اجماع و قیاسِ مجتہد۔ ان میں سے اگر ایک دلیل سے بھی حکم ثابت کردیا جائے وہ ثابت ہوجائے گا، البتہ حسبِ تفاوتِ ادلہ کے خود ان احکام کے ثبوت کا درجہ بھی متفاوت ہوگا۔
۴۔ بعضے مستفتی حیلے پوچھا کرتے ہیں ہرگز نہ بتلانا چاہیے۔
۵۔ بعض اوقات سوال مہمل ہوتا ہے اور وہ محتمل دو صورتوں کو ہوتا ہے اور ہر صورت کا حکم جدا ہوتا ہے۔ وہاں اکثر اہلِ علم تشقیق سے جواب دے دیتے ہیں کہ اگر یہ صورت ہے تو یہ حکم ہے اور اگر وہ صورت ہے تو وہ حکم ہے۔ اس کا تجربہ کاروں نے منع فرمایا ہے کہ اس سے ناخدا ترس لوگوں کو اپنی مرضی کے موافق سوال تراش لینے کی گنجایش ملتی ہے کہ وہ اسی شق کے مدعی بن جاتے ہیں اور اصل واقعہ ملبّس ہوجاتا ہے۔ اس کے متعلق بندہ نے کسی قدر پرچۂ ’’القاسم‘‘ نمبر (۱) جلد (۱) میں بھی لکھا ہے ملاحظہ فرمالیا جاوے۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 علومِ دینیہ سے بے رغبتی کے اسباب 9 1
3 اَلْبَابُ الْأَوَّلُ 10 1
4 دین کے اجزا 11 3
5 علمِ دین کے دو مرتبے 11 3
6 علم کے ہر مرتبہ کو سیکھنے کا شرعی حکم 13 3
7 ۔ُعلما۔َ سے علم حاصل کرنے کا طریقہ 13 3
8 دو شبہات کے جواب 14 3
9 کیا مولوی بننے سے پست خیالی او رکم ہمتی پیدا ہوتی ہے 17 3
10 باب اول کی تیسری فضل کے بعض اجزا کی ضروری توضیح اور تفریع 21 3
11 مال خرچ کرنے میں احتیاط بخل نہیں ہے 22 3
12 صرف عربی زبان جاننے کا نام مولوی نہیں ہے 23 3
13 باریک لکھنے پر اعتراض کا جواب 24 3
14 تواضع کو تذلل سمجھنا غلط ہے 24 3
15 کمروں کی صفائی نہ کرنے پر اعتراض اور اس کا جواب 25 3
16 طلبہ کے کپڑوں پر شبہ کا جواب 26 3
17 طلبہ کا بے ڈھنگا پن 26 3
18 کیا مولوی بدتہذیب ہوتے ہیں 27 3
19 متفرق شبہات کے جوابات 33 3
20 ۔ُعلما۔َ کے درمیان عناد و حسد ہونے کا شبہ 33 3
21 ۔ُعلما۔َ کا آپس میں اختلاف کرنا 34 3
22 زمانہ کی مصلحت کا لحاظ نہ کرنے کا شبہ 36 3
23 ۔ُعلما۔َ کا لوگوں کے حال پر رحم نہ کرنے کا 37 3
24 تقریر و تحریر سے واقف نہ ہونے کا شبہ 38 3
25 دنیا کے قصوں سے بے خبر ہونے کا شبہ 39 3
26 اَلْبَابُ الثَّانِيْ 40 1
27 عمل کی ضرورت نہ ہونے کا غلط خیال 40 26
28 علومِ دینیہ کی طرف نسبت رکھنے والے بعض لوگوں کی غلطی 41 26
29 احتمال، وسوسہ، طمع اور اشراف میں فرق 42 26
30 مدرسہ یا انجمن کے لیے سوال کرنے کا حکم 43 26
31 علما۔َ کو نصیحت 45 26
32 بعض مولویوں کی غلطی اور اس کا نقصان 47 26
33 بعض ۔ُعلما۔َ کا خیال غلط اور اس کا نقصان 48 26
34 اُ۔َمرا سے اجتناب کے وقت کیا نیت ہونی چاہیے 50 26
35 دنیاداروں کو دھتکارنا مناسب نہیں ہے 50 26
36 شہرت حاصل کرنے کی ایک حرکت 51 26
37 مناظرہ کرنا کب ضروری ہے 52 26
38 مناظرہ کے شرائط 55 26
39 مناظرہ کے شرائط و مفاسد سے چشم پوشی کا نتیجہ 56 26
40 پہلے ۔ُعلما۔َ کے مناظرہ پر اپنے مناظرہ کو قیاس کرنا درست نہیں ہے 57 26
41 وعظ کو طلبِ جاہ کا ذریعہ بنانے کی خرابی 58 26
42 مدارس کی بعض اصلاحات میں 59 1
43 مدارس میں بھی بعض اصلاحات کی ضرورت ہے 59 42
44 زبردستی چندہ لینا درست نہیں 60 42
45 دوامی چندہ نہ دینے والوں کے نام شائع کرنا بری بات ہے 61 42
46 صحیح حیلۂ تملیک 61 42
47 چندہ کی رقم میں عدمِ احتیاط 62 42
48 کھانے کے لیے طلبہ کو کسی کے گھر بھیجنا مناسب نہیں ہے 62 42
49 طلبہ کے اعمال اور وضع قطع پر روک ٹوک ضروری ہے 63 42
50 کمالِ علمی کے بغیر سندِ فراغ دینا نقصان دہ ہے 63 42
51 مدارس میں تقریر و تحریر کا انتظام کرنا چاہیے 63 42
52 طلبہ کی رائے کے مطابق تعلیم مناسب نہیں ہے 63 42
53 مدارس میں تجوید اور اخلاق کی کتاب داخلِ درس ہونا ضروری ہے 64 42
54 مدارس کا باہم تصادم بہت نقصان دہ ہے 64 42
55 مسلمانوں کو تنبیہ 65 42
56 بعض مدرسین کی کوتاہی 65 42
57 واعظین و مصنّفین اور مفتیوں کی اصلاحات 66 1
58 اہلِ علم کا وعظ نہ کہنا غلط ہے 66 57
59 بعض واعظین کی کوتاہیاں 67 57
60 تصنیف میں کوتاہیاں،اصلاحات متعلقہ تصنیف 67 57
61 فتویٰ دینے میں کوتاہیاں 67 57
62 متفرق اصلاحات 69 1
63 اہلِ علم کا لباس وغیرہ میں تکلف کرنا نامناسب ہے 69 62
64 اہلِ دنیا کا سلوک ۔ُعلما۔َ کے ساتھ 70 62
65 ناصح الطلبہ 71 62
66 طلبہ میں انقلاب 72 62
67 طلبہ کی نااہلی کا غلط ثمرہ 73 62
68 عو ام کا غلط نظریہ 73 62
69 علما۔َ سے درخواست 74 62
70 طلبہ میں بداستعدادی کے اسباب 74 62
71 مدرسین کو چاہیے کہ طلبہ کی استعداد سے کام لیں 75 62
72 طلبہ کی فہم کی قوت کو کام میں لانے کی ضرورت ہے 75 62
73 ہر مضمون کی تقریر استاد نہ کیا کریں 77 62
74 طلبہ سے کتاب حل نہ کرانے کا عذر 78 62
75 مدرّسین سے گزارش 79 62
76 کم عمر طلبہ کی تربیت کا طریقہ 79 62
77 طلبہ کو بے تکلفی اور سادگی اپنانی چاہیے 80 62
Flag Counter