میں چند حالتیں ہیں: ایک یہ کہ صاحبِ باطل متردد اور طالب اور جو یاحق کا ہے اپنے شبہات کو صاف کرنا چاہتا ہے اور ا س غرض سے مناظرہ کرتا ہے، یہ مناظرہ قادر علی تائید الحق پر واجب اور فرض ہے، اور جب جواب سے عجز ہو صاف کہہ دینا چاہیے کہ اس کا جواب میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میں سوچ کر یا پوچھ کر پھر بتلائوں گا، یا اپنے سے زیادہ جاننے والے کا پتہ بتلاوے۔ اور اس طالب کو چاہیے کہ وہاں جاکر رجوع کرے اور قدرت ہوتے ہوئے ایسے مناظرہ سے انکار کرنا معصیت ہے۔ یہ حدیث اس کو بھی شامل ہے۔ مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَکَتَمَہٗ۔1
دوسری حالت یہ ہے کہ وہ طالب نہیں، لیکن متکلم مناظرہ کو توقع و احتمال ہے کہ شاید مخاطب قبول کرلے، سو جب تک اس کی امید ہو مناظرہ کرنا تبلیغِ احکام میں داخل ہے، جہاں تبلیغ واجب ہے وہاں یہ بھی واجب ہے، اور جہاں تبلیغ مستحب ہے یہ بھی مستحب ہے۔ جناب سرورِ عالم ﷺ و صحابہ ؓ کے مناظرات اہلِ کتاب و خوارج وغیرہم اسی قبیل کے تھے۔
اور تیسری حالت یہ ہے کہ وہ طالب بھی نہیں اور اس کے قبول کی بھی امید نہیں، مگر کسی مفسدہ و مضرت کا اندیشہ بھی نہیں اور کسی ضروری امر میں خلل بھی محتمل نہیں تو اس حالت میں ایسا مناظرہ مستحب ہے۔
اور چوتھی حالت یہ ہے کہ نہ طالب ہے نہ قبول کی امید نہ کسی ضروری امر میں خلل کا احتمال، مگر خاص مضرت کا اندیشہ ہے تو اس صورت میں قوی الہمۃ کے لیے عزیمت و اولیٰ ہے اور ضعیف الہمۃ کے لیے رخصت اور غیر اولیٰ ہے۔
اور پانچویں حالت یہ ہے کہ نہ طالب نہ توقعِ قبول اور ساتھ ہی کسی دینی مضرّت کا احتمال ہے یا دینی منفعتِ مہمہ کا فوت محتمل ہے، اس صورت میں اس سے اعراض اور ضروری میں اشتغال واجب ہے۔ قرآن مجید میں اعراض و ترکِ جدال کا امر ایسے ہی مواقع پر ہے۔ سورۂ عبس کا شانِ نزول جو قصہ تھا جناب رسول اللہ ﷺ نے اپنے اجتہاد سے اس کو تیسری حالت میں داخل سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو پانچویں حالت میں داخل بتلایا اور چوں کہ اس میں داخل ہونا خفی تھااس لیے ترک واجب کا شبہ نہیں کیا جاسکے گا۔
چھٹی حالت یہ ہے کہ مناظرہ کرنے میں تو مخاطب کی نہ کوئی منفعت متوقع اور نہ اس سے کسی خاص مضرّت کا احتمال، اور مناظرہ نہ کرنے میں عوام اہلِ حق کے شبہ میں واقع ہوجانے کا خوف ہو اور مسئلہ ایسا ہو کہ عوام اہلِ حق کو اس کے غلط ہونے کا احتمال بھی نہیں ہوتا کہ ۔ُعلما۔َئے اہلِ حق سے دریافت کرسکیں تو اس صورت میں اس کی تدبیر واجب ہے۔ اس کی دو تدبیریں ہیں: ایک یہ کہ خود اہلِ باطل کو مطالمہ یا مکاتبہ میں مخاطب بنایا جاوے، دوسری تدبیر یہ ہے کہ اس سے خطاب نہ کیا جائے بلکہ عام خطاب سے حق کو ثابت اورباطل کو ردّ کیا جاوے۔ پس یہ دونوں تدبیریں واجب علی التخییر ہیں، ان میں سے جس تدبیر کو اختیار کرلیا جاوے گا واجب ادا ہوجاوے گا۔