اور {فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰی رَبِّکَص اِنَّکَ لَعَلٰی ہُدًی مُّسْتَقِیْمٍO وَاِنْ جٰدَلُوْکَ فَقُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَO اَللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَO}2
اور {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًی وَّلَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍO}3
اور {فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَ۔نَا وَاَبْنَآئَ کُمْ وَنِسَآئَ نَا وَنِسَآئَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْقف ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَO}1
اور اقوال اکابرِ ائمہ کے اس کے ذم میں کتبِ کلامیہ اور ’’اِحیاء العلوم‘‘ وغیرہ میں منقول ہیں۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ مسئلہ دو قسم کا ہے: ایک وہ جس کی ایک جانب یقینا حق اور دوسری شق یقینا باطل ہو سمعاً یا عقلاً، یہ مسائل قطعیہ کہلاتے ہیں۔ ایک وہ جس میں جانبین میں حق اور صواب اور خطا و غلط دونوں محتمل ہوں، یہ مسائل ظنیہ کہلاتے ہیں۔ مسائلِ کلامیہ اکثر تمام اول سے ہیں اور بعض قسم ثانی سے، اور مسائلِ فقہیہ اکثر قسم ثانی سے ہیں اور بعض قسم اول سے، جیسا کہ متتبع پر مخفی نہیں۔ پس مسائلِ ظنیہ محتملۃ الخطا والصواب ہیں خواہ وہ از قسمِ مسائلِ کلامیہ ہوں یا از قبیلِ مسائلِ فقہیہ، صرف اثبات ترجیح ظنی کے لیے نہ اہلِ علم کی باہم مکالمت بلابغض و عناد و بلا اعتقادِ قطع ایک جانب کے و بلاقصد ابطالِ جازم دوسرے جانب کے دربعزمِ رجوع و قبولِ حق کے جب سمجھ میں آجائے جائز ہے، مگر مصلحت یہ ہے کہ عوام تک اس کی اطلاع نہ ہو۔ اگر زبانی گفتگو ہو تو مجمع خواص میں ہو، اور اگر تحریری ہو تو عام فہم زبان میں۔ مثلاً ہندوستان میں اردو میں نہ ہو عربی میں ہو یا کم از کم فارسی میں ہوتاکہ اگر کسی وقت وہ تحریرات شائع کی جاویں تو عوام پر اس اختلاف سے کوئی اثر نہ پہنچے۔ اور سلف سے ان مسائل میں اسی طرح کی گفتگو منقول ہے نہ وہ گفتگو جو آج کل ہوتی ہے کہ ایک قراء ۃ فاتحہ خلف الامام کا حق ہونا اس طرح بتلارہا ہے کہ اس کے نزدیک تمام حنفیہ تارک الصلوٰۃ اور فاسق ہیں، اور دوسرا اس کی نفی ا س طرح کررہا ہے کہ گویا اس کے نزدیک قراء ۃ خلف الامام میں کوئی حدیث ہی نہیں آئی۔ اور عین مناظرہ میں اگر کوئی مقابل کا قول دل کو بھی لگ جائے تب بھی ہرگز قبول نہ کریں، جس طرح بن سکے اس کو رد کریں، بلکہ مقابل کی گفتگو شروع ہونے کے ساتھ ہی رد کا پختہ ارادہ کرلیتے ہیں اور اول سے اسی کے سوچ میں رہتے ہیں اور اسی نیت سے سنتے ہیں کیوں کہ تمام تر مقصود اپنا غلبہ اور دوسرے کا اسکات ہوتا ہے۔ پھر باہمی عناد و فساد حتیٰ کہ نوبت بعدالت پہنچتی ہے۔ یہ علاوہ بریں کیا یہ دین ہے؟ کیا یہی طریقہ سلفِ صالحین کا ہے؟ کیا حضرات صحابہ ؓ سے ان مسائل میں ایسا عملدرآمد ثابت ہے۔ یہ تو مسائلِ ظنیہ کے متعلق بیان ہوا۔
اب رہ گئے مسائلِ قطعیہ متعینّۃ الصواب جیسے کفر و اسلام کا اختلاف یا سنت و بدعت متفق علیہا عند اہل الحق کا اختلاف ا س