Deobandi Books

حقوق العلم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

53 - 82
اور {فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰی رَبِّکَص اِنَّکَ لَعَلٰی ہُدًی مُّسْتَقِیْمٍO وَاِنْ جٰدَلُوْکَ فَقُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَO اَللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَO}2
اور {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًی وَّلَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍO}3
اور {فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَ۔نَا وَاَبْنَآئَ کُمْ وَنِسَآئَ نَا وَنِسَآئَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْقف ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَO}1 
اور اقوال اکابرِ ائمہ کے اس کے ذم میں کتبِ کلامیہ اور ’’اِحیاء العلوم‘‘ وغیرہ میں منقول ہیں۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ مسئلہ دو قسم کا ہے: ایک وہ جس کی ایک جانب یقینا حق اور دوسری شق یقینا باطل ہو سمعاً یا عقلاً، یہ مسائل قطعیہ کہلاتے ہیں۔ ایک وہ جس میں جانبین میں حق اور صواب اور خطا و غلط دونوں محتمل ہوں، یہ مسائل ظنیہ کہلاتے ہیں۔ مسائلِ کلامیہ اکثر تمام اول سے ہیں اور بعض قسم ثانی سے، اور مسائلِ فقہیہ اکثر قسم ثانی سے ہیں اور بعض قسم اول سے، جیسا کہ متتبع پر مخفی نہیں۔ پس مسائلِ ظنیہ محتملۃ الخطا والصواب ہیں خواہ وہ از قسمِ مسائلِ کلامیہ ہوں یا از قبیلِ مسائلِ فقہیہ، صرف اثبات ترجیح ظنی کے لیے نہ اہلِ علم کی باہم مکالمت بلابغض و عناد و بلا اعتقادِ قطع ایک جانب کے و بلاقصد ابطالِ جازم دوسرے جانب کے دربعزمِ رجوع و قبولِ حق کے جب سمجھ میں آجائے جائز ہے، مگر مصلحت یہ ہے کہ عوام تک اس کی اطلاع نہ ہو۔ اگر زبانی گفتگو ہو تو مجمع خواص میں ہو، اور اگر تحریری ہو تو عام فہم زبان میں۔ مثلاً ہندوستان میں اردو میں نہ ہو عربی میں ہو یا کم از کم فارسی میں ہوتاکہ اگر کسی وقت وہ تحریرات شائع کی جاویں تو عوام پر اس اختلاف سے کوئی اثر نہ پہنچے۔ اور سلف سے ان مسائل میں اسی طرح کی گفتگو منقول ہے نہ وہ گفتگو جو آج کل ہوتی ہے کہ ایک قراء ۃ فاتحہ خلف الامام کا حق ہونا اس طرح بتلارہا ہے کہ اس کے نزدیک تمام حنفیہ تارک الصلوٰۃ اور فاسق ہیں، اور دوسرا اس کی نفی ا س طرح کررہا ہے کہ گویا اس کے نزدیک قراء ۃ خلف الامام میں کوئی حدیث ہی نہیں آئی۔ اور عین مناظرہ میں اگر کوئی مقابل کا قول دل کو بھی لگ جائے تب بھی ہرگز قبول نہ کریں، جس طرح بن سکے اس کو رد کریں، بلکہ مقابل کی گفتگو شروع ہونے کے ساتھ ہی رد کا پختہ ارادہ کرلیتے ہیں اور اول سے اسی کے سوچ میں رہتے ہیں اور اسی نیت سے سنتے ہیں کیوں کہ تمام تر مقصود اپنا غلبہ اور دوسرے کا اسکات ہوتا ہے۔ پھر باہمی عناد و فساد حتیٰ کہ نوبت بعدالت پہنچتی ہے۔ یہ علاوہ بریں کیا یہ دین ہے؟ کیا یہی طریقہ سلفِ صالحین کا ہے؟ کیا حضرات صحابہ ؓ  سے ان مسائل میں ایسا عملدرآمد ثابت ہے۔ یہ تو مسائلِ ظنیہ کے متعلق بیان ہوا۔
اب رہ گئے مسائلِ قطعیہ متعینّۃ الصواب جیسے کفر و اسلام کا اختلاف یا سنت و بدعت متفق علیہا عند اہل الحق کا اختلاف ا س 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 علومِ دینیہ سے بے رغبتی کے اسباب 9 1
3 اَلْبَابُ الْأَوَّلُ 10 1
4 دین کے اجزا 11 3
5 علمِ دین کے دو مرتبے 11 3
6 علم کے ہر مرتبہ کو سیکھنے کا شرعی حکم 13 3
7 ۔ُعلما۔َ سے علم حاصل کرنے کا طریقہ 13 3
8 دو شبہات کے جواب 14 3
9 کیا مولوی بننے سے پست خیالی او رکم ہمتی پیدا ہوتی ہے 17 3
10 باب اول کی تیسری فضل کے بعض اجزا کی ضروری توضیح اور تفریع 21 3
11 مال خرچ کرنے میں احتیاط بخل نہیں ہے 22 3
12 صرف عربی زبان جاننے کا نام مولوی نہیں ہے 23 3
13 باریک لکھنے پر اعتراض کا جواب 24 3
14 تواضع کو تذلل سمجھنا غلط ہے 24 3
15 کمروں کی صفائی نہ کرنے پر اعتراض اور اس کا جواب 25 3
16 طلبہ کے کپڑوں پر شبہ کا جواب 26 3
17 طلبہ کا بے ڈھنگا پن 26 3
18 کیا مولوی بدتہذیب ہوتے ہیں 27 3
19 متفرق شبہات کے جوابات 33 3
20 ۔ُعلما۔َ کے درمیان عناد و حسد ہونے کا شبہ 33 3
21 ۔ُعلما۔َ کا آپس میں اختلاف کرنا 34 3
22 زمانہ کی مصلحت کا لحاظ نہ کرنے کا شبہ 36 3
23 ۔ُعلما۔َ کا لوگوں کے حال پر رحم نہ کرنے کا 37 3
24 تقریر و تحریر سے واقف نہ ہونے کا شبہ 38 3
25 دنیا کے قصوں سے بے خبر ہونے کا شبہ 39 3
26 اَلْبَابُ الثَّانِيْ 40 1
27 عمل کی ضرورت نہ ہونے کا غلط خیال 40 26
28 علومِ دینیہ کی طرف نسبت رکھنے والے بعض لوگوں کی غلطی 41 26
29 احتمال، وسوسہ، طمع اور اشراف میں فرق 42 26
30 مدرسہ یا انجمن کے لیے سوال کرنے کا حکم 43 26
31 علما۔َ کو نصیحت 45 26
32 بعض مولویوں کی غلطی اور اس کا نقصان 47 26
33 بعض ۔ُعلما۔َ کا خیال غلط اور اس کا نقصان 48 26
34 اُ۔َمرا سے اجتناب کے وقت کیا نیت ہونی چاہیے 50 26
35 دنیاداروں کو دھتکارنا مناسب نہیں ہے 50 26
36 شہرت حاصل کرنے کی ایک حرکت 51 26
37 مناظرہ کرنا کب ضروری ہے 52 26
38 مناظرہ کے شرائط 55 26
39 مناظرہ کے شرائط و مفاسد سے چشم پوشی کا نتیجہ 56 26
40 پہلے ۔ُعلما۔َ کے مناظرہ پر اپنے مناظرہ کو قیاس کرنا درست نہیں ہے 57 26
41 وعظ کو طلبِ جاہ کا ذریعہ بنانے کی خرابی 58 26
42 مدارس کی بعض اصلاحات میں 59 1
43 مدارس میں بھی بعض اصلاحات کی ضرورت ہے 59 42
44 زبردستی چندہ لینا درست نہیں 60 42
45 دوامی چندہ نہ دینے والوں کے نام شائع کرنا بری بات ہے 61 42
46 صحیح حیلۂ تملیک 61 42
47 چندہ کی رقم میں عدمِ احتیاط 62 42
48 کھانے کے لیے طلبہ کو کسی کے گھر بھیجنا مناسب نہیں ہے 62 42
49 طلبہ کے اعمال اور وضع قطع پر روک ٹوک ضروری ہے 63 42
50 کمالِ علمی کے بغیر سندِ فراغ دینا نقصان دہ ہے 63 42
51 مدارس میں تقریر و تحریر کا انتظام کرنا چاہیے 63 42
52 طلبہ کی رائے کے مطابق تعلیم مناسب نہیں ہے 63 42
53 مدارس میں تجوید اور اخلاق کی کتاب داخلِ درس ہونا ضروری ہے 64 42
54 مدارس کا باہم تصادم بہت نقصان دہ ہے 64 42
55 مسلمانوں کو تنبیہ 65 42
56 بعض مدرسین کی کوتاہی 65 42
57 واعظین و مصنّفین اور مفتیوں کی اصلاحات 66 1
58 اہلِ علم کا وعظ نہ کہنا غلط ہے 66 57
59 بعض واعظین کی کوتاہیاں 67 57
60 تصنیف میں کوتاہیاں،اصلاحات متعلقہ تصنیف 67 57
61 فتویٰ دینے میں کوتاہیاں 67 57
62 متفرق اصلاحات 69 1
63 اہلِ علم کا لباس وغیرہ میں تکلف کرنا نامناسب ہے 69 62
64 اہلِ دنیا کا سلوک ۔ُعلما۔َ کے ساتھ 70 62
65 ناصح الطلبہ 71 62
66 طلبہ میں انقلاب 72 62
67 طلبہ کی نااہلی کا غلط ثمرہ 73 62
68 عو ام کا غلط نظریہ 73 62
69 علما۔َ سے درخواست 74 62
70 طلبہ میں بداستعدادی کے اسباب 74 62
71 مدرسین کو چاہیے کہ طلبہ کی استعداد سے کام لیں 75 62
72 طلبہ کی فہم کی قوت کو کام میں لانے کی ضرورت ہے 75 62
73 ہر مضمون کی تقریر استاد نہ کیا کریں 77 62
74 طلبہ سے کتاب حل نہ کرانے کا عذر 78 62
75 مدرّسین سے گزارش 79 62
76 کم عمر طلبہ کی تربیت کا طریقہ 79 62
77 طلبہ کو بے تکلفی اور سادگی اپنانی چاہیے 80 62
Flag Counter