کہ ان کو مطلوب بناکر ان سے ملا جاتا ہے لامحالہ ان کی حرکاتِ غیرمشروعہ پر سکوت کرنا پڑتا ہے۔ پس اس سکوت سے ان ۔ُعلما۔َ کے اندر ایک کیفیت مداہنت کی پیدا ہوجاتی ہے اور صحبت کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کو ترقی ہوتی رہتی ہے حتیٰ کہ قلب سے پھر اس کا اثر زبان پر آتا ہے۔ یعنی اول قلب سے حق کی عظمت اور باطل سے نفرت کم ہوتی ہے، پھر زبان سے اظہارِ حق کی ہمت گھٹتی ہے، پھر باطل کے ساتھ تکلم کرنا خفیف معلوم ہونے لگتا ہے، پھر باطل کا صدور ہونے لگتا ہے حتیٰ کہ ان اُ۔َمرا کو اس کا احساس ہوکر اس کا حوصلہ ہوتا ہے کہ وہ ان ۔ُعلما۔َ سے اپنی نفسانی خواہش کے موافق توجیہات کرنے کی فرمایش کرنے لگتے ہیں اور یہ ان خواہشوں کو پورا کرتے ہیں۔ اس مقام پر پہنچ کر ان کا قلب مسخ ہوجاتا ہے اور حق بینی کی استعداد بالکل ضائع ہوجاتی ہے اور کبھی کبھی اہلِ حق سے جدال اور عناد پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اس حالت میں پھر ان کی اصلاح کی کچھ توقع نہیں رہتی، اور یہ لوگ امتِ محمدیہ کے لیے ابلیس سے زیادہ ضرر رساں ہوجاتے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے اگر شیطان فارغ ہو بیٹھے تو بعید و عجیب نہیں۔ میں نے اپنی آنکھ سے ایسے ہی ایک طالبِ دنیا کا فتویٰ لکھا ہوا دیکھا ہے جس نے ایک ہزار روپیہ لے کر ایک خاص ترکیب تراش کر حقیقی ساس کے ساتھ نکاح حلال لکھ دیا تھا۔ اس حدیث میں اسی مسخِ قلب کا ذکر ہے:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : لَمَّا وَقَعَتْ بَنُوْ إِسْرَائِیْلَ فِي الْمَعَاصِيْ فَنَھَتْھُمْ عُلَمَاؤُھُمْ فَلَمْ یَنْتَھُوْا، فَجَالَسُوْھُمْ وَآکَلُوْھُمْ وَشَارَبُوْھُمْ، فَضَرَبَ اللّٰہُ قُلُوْبَ بَعْضِھِمْ بِبَعْضٍ فَلَعَنَھُمْ عَلَی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ، ذَالِکَ بِمَا عَصُوْا وَکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۔1
اور یہ سب خرابیاں اسی وقت ہیں جب ان اُ۔َمرا کو مطلوب بناکر ان کے پاس جاویں۔ اسی کی مذمت احادیثِ صحیحہ میں آئی ہے:
عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : إِنَّ مِنْ أَبْغَضِ الْقُرَّائِ إِلَی اللّٰہِ الَّذِیْنَ یَزُوْرُوْنَ الْأُمَرَائَ۔2
وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : اَلْعُلَمَائُ أُمَنَائُ الدِّیْنِ مَا لَمْ یُخَالِطُوا الْأُمَرَائَ، فَـإِذَا خَالَطُوا الْأُمَرَائَ فَھُمْ لُصُوْصُ الدِّیْنِ فَاحْذَرُوْھُمْ۔3
البتہ اگر اُ۔َمرا طالب ہوکر ان کے پاس حاضر ہوں یا کسی ضرورت سے خود ان کو مدعو کریں تو اس معاہدہ کے بعد کہ ہم آزادی سے جو چاہیں گے کہہ سکیں گے، اور یہ کہ ہم کو نذرانہ وغیرہ نہ دیا جائے۔ اگر ان سے مخالطت نہ کریں تو یہ مخالفتِ دین ہے، ورنہ اگر ۔ُعلما۔َ اس طرح بھی ان سے نہ ملیں تو ان کو دین کیوں کر پہنچے گا، مگر اس طرح کا اختلاط یہ ضروری علی الکفایہ ہے اس لیے ایسا ہی شخص زیبا ہے جو قوی القلب غنی النفس ہو، ورنہ ضعیف کے لیے اسلم یہی ہے کہ اُ۔َمرا سے