اس لیے ۔ُعلما۔َ پر ضروری ہے کہ ایسے اعمال جو خلافِ شرع وخلافِ وضع ہوں ہرگز اختیار نہ کریں، تو۔ّکل پر دین کی خدمت کریں۔ خطابِ عام سے ترغیب الی الخیر والانفاق فی سبیل اللہ حسب موقع کردینا مضائقہ نہیں۔ اگر کوئی راغب الی الخیر میسر ہوجائے جو مصارفِ خیر کا جویا ں رہتا ہے اور پورا یقین ہو کہ خطابِ خاص سے اس کی آزادی میں ذرا اختلال نہ ہوگااور جو کچھ کرے گا بطیبِ خاطر کرے گا، تو ان قیود کے ساتھ خطابِ خاص کا مضائقہ نہیں۔ باقی ناجائز یا رکیک افعال عوام کے لیے علمِ دین سے موجب تحقیر اہلِ علم کی نسبت موجب تحقیر ہوجاتے ہیں جس کے انسداد کے زیادہ ذمہ دار اہلِ علم ہیں۔ یہ کلام تھا متعلق چندہ طلب کرنے کے۔ بعضے ایساکرتے ہیں کہ اُ۔َمرا اہلِ اموال سے اختلاط و ارتباط اس غرض سے رکھتے ہیں کہ ان سے وقتاً فوقتاً کچھ حاصل ہوتا ہے اور اس غرض کے لیے گاہے یہاں تک نوبت آتی ہے کہ ان کے غرض کے موافق مسئلہ بنادیتے بلکہ بنالیتے ہیں۔ جس سے سردست تو وہ خوش ہوجاتے ہیں اور ان کی خوشی سے ان کا کچھ کام نکل جاتا ہے، لیکن بہت جلدی ہی ان کی نظر سے گر جاتے ہیں اور پھر وہ ان دوسرے ۔ُعلما۔َ کو قیاس کرکے جماعت کی جماعت سے بدظن اور علمِ دین سے نفور ہوجاتے ہیں، تو اس طور پر یہ لوگ متاع للخیر اور یصدون عن سبیل اللّٰہ کے مصداق بنتے ہیں۔ ان کی مذمت احادیث میں بھی وارد ہے۔ ابن ماجہ سے حدیثیں نقل کرتا ہوں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : إِنَّ أُنَاسًا مِّنْ أُمَّتِـيْ سَیَتَفَقَّھُوْنَ فِي الدِّیْنِ وَیَقْرَؤُوْنَ الْقُرْآنَ، وَیَقُوْلُوْنَ: نَأْتِي الْأُمَرَائَ فَنُصِیْبُ مِنْ دُنْیَاھُمْ وَنَعْتَزِلُھُمْ بِدِیْـنِنَا، وَلَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ کَمَا لَا یُجْتَنٰی مِنَ الْقَتَادِ إِلَّا الشَّوْکُ کَذٰلِکَ لَا یُجْتَنٰی مِنْ قُرْبِھِمْ، إِلَّا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَاحِ: کَأَنَّہٗ یَعْنِي الْخَطَایَا۔1
وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍؓ قَالَ: لَوْ أَنَّ أَھْلَ الْعِلْمِ صَانُوا الْعِلْمَ وَوَضَعُوْہٗ عِنْدَ أَھْلِہِ لَسَادُوْا بِہٖ أَھْلَ زَمَانِھِمْ، وَلٰـکِنَّھُمْ بَذَلُوْہٗ لأَِھْلِ الدُّنْیَا لِیَنَالُوْا بِہٖ مِنْ دُنْیَاھُمْ فَھَانُوْا عَلَیْھِمْ۔2
اور اختلاط میں جو اس غرض کی قید لگائی کہ ان سے کچھ حاصل ہوتا رہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر اختلاط اس غرض سے ہو کہ ان کی اصلاح ہو ان کو احکامِ دینیہ بتلائے جاویں خصوص جب کہ وہ خود خواہش کریں اور ان کو حاضرہونے کی مہلت نہ ہو تو یہ بلانا قرینہ دین کا ہے۔ ایسا اختلاط نہ مضرِ دین ہے نہ موجبِ مذلت ہے، مگر جب کہ یہ قرائن سے یا شرط سے معلوم ہو کہ میں آزادی کے ساتھ حق ظاہر کرسکوں گا، ورنہ اگر یہ معلوم ہو کہ ان کے بلانے کی غرض اپنے کسی خاص خیال کی تائید کرانا ہے تو اس جگہ جانا اوپر کی وعیدوں کا مصداق بنتا ہے، اور ایسی حالت میں اگر وہ کچھ خدمت کریں، لینے کا مضائقہ نہیں مگر مشورہ احقر کا یہ ہے کہ ہرگز قبول نہ کرے بلکہ جانے کے قبل شرط کرلے دینے لینے کا کچھ قصد نہ ہو۔ اس کا اثر فطری طور پر بہت اچھا ہوتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس صورت میں ان اُ۔َمرا کا حوصلہ نہیں پڑتا کہ اہلِ علم کو اپنا تابع