ایک شبہ یہ ہے کہ ان مولویوں میں اکثر مسئلوں میں باہم اختلاف ہوتا ہے، جس سے عام لوگوں کو عمل کرنے میں سخت حیرت ہوتی ہے کہ کس پر عمل کریں کس کو ترک کریں۔ پس یہ مولویت کا سلسلہ بڑھانا اس اختلاف کو اور زیادہ وسعت دینا ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ کیا اَطبا۔ّ میں باہم تشخیصِ مرض و تجویزِ تدبیر میں اختلاف نہیں ہوتا۔ کیا اس اختلاف سے بھی ایسی ہی تنگی ہوتی ہے، اورکیا اس تنگی کے بعد کوئی شخص اپنے مریض کو بدون علاج ہی چھوڑ دیتا ہے کہ اختلاف کی حالت میں کس کا علاج کریں، تو لائو سب ہی کو چھوڑ دیں۔ یا ایسا نہیں کیا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون طبیب زیادہ تجربہ کار اور ماہرِ فن ہے او رکس کے ہاتھ سے مریض زیادہ شفایاب ہوتے ہیں۔ اگر اختلافِ اَطبا۔ّ سبب نہیں ہوتا تنگی و ترک معالجہ کا تو اختلافِ ۔ُعلما۔َ کیوں سبب ہوتا ہے تنگی اور ترکِ عمل کا۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آدمی جس امر کو ضروری سمجھتا ہے اس میں ایسے خیالات سنگِ راہ نہیں ہوتے، اور جس کو ضروری نہیں سمجھتا اس کے ترک کے لیے ادنیٰ سا حیلہ گو بے ہودہ ہی ہو کافی ہوجاتا ہے۔ جس طرح وہاں ایک طبیب کو (ایک خاص علامت سے جو اوپر مذکور ہوئی) ترجیح دے کر اس کا علاج اختیار کیا جاتاہے، اسی طرح یہاں بھی ایک عالم کو اسی کی نظیر علامت سے (کہ کس عالم کو اہلِ فہم اور اہلِ دین علم اور عمل سے زیادہ سمجھتے ہیں اور کس کی تحقیقات نظرِ انصاف میں زیادہ اطمینان بخش ہوتی ہیں) ترجیح دے کر اس کے فتاویٰ کا اتباع کریں۔
اسی اختلافِ ۔ُعلما۔َ کے متعلق ایک اور رائے بھی دی جایا کرتی ہے کہ ۔ُعلما۔َ کے لیے باہم اختلاف رکھنا بہت مذموم ہے ان کو اتفاق رکھنا چاہیے، لیکن غور کیا جائے تو اس رائے کا لچر اور مہمل ہونا نہایت ۔ّبین ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا ہر اختلاف ہر شخص کے لیے مذموم ہے؟ اگر یہ ہے تو چاہیے کہ عدالت میں جب کوئی مقدمہ پیش ہو جس میں ایک کا دعویٰ دوسرے کا جوابِ دعویٰ داخل ہو تو عدالت بجائے اس کے کہ تنقیح و تحقیق کا بار اپنے ذمہ لے اول ہی وہلہ میں محض اس بنا پر کہ یہ لوگ باہم اختلاف کرتے ہیں اور اختلاف مطلقاً مذموم ہے، فریقین کو ہمیشہ سزا کردیا کریں کہ ایسے جرمِ اخلاقی کے کیوں مرتکب ہوئے۔ یا اگر اس جرم کو اس درجہ کا نہ سمجھے تو کم از کم ہر مقدمہ کو خارج ہی کردیا جائے۔ کیا وجہ ہے کہ تحقیق واقعات کی کرکے ایک ڈگری دیتی ہے، کیا وہ ایک مجرم اخلاقی کی طرف داری و حمایت کرتی ہے؟ اس سے صاف معلوم ہوا کہ اہلِ اختلاف میں سے ہر ایک کو الزام دینا اور دونوں کو مشورۂ اتفاق دینا غلطی ہے۔ بلکہ اول تحقیق کرکے متعین کریں کہ ان اہلِ اختلاف میں حق پر کون ہے اور باطل پر کون ہے، جو حق پرہو اس کی طرف ہوکر صاحبِ باطل کو مجبور کریں اور رائے دیں کہ تم کو اختلاف کرنا جائز نہیں تم فلاں شخص کے ساتھ اتفاق کرو۔
ورنہ قبلِ تعیینِ حق اگر وہ اتفاق بھی کرنا چاہیں تو آخر اس اتفاق کا کوئی مرکز بھی تو ہونا چاہیے اور وہ متعین نہیں تو اتفاق کی